81821 | طلاق کے احکام | طلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان |
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی غیر شادی شدہ شخص نے بالقسم یا بلا قسم کہا کہ اگر میں نے چوری کی ہو تو جب میں شادی کروں تو میری بیوی کو طلاق ہو۔تو سوال یہ ہے کہ:
-1بالقسم کا کیا حکم ہے؟ -2بلا قسم کا کیا حکم ہے؟ -3یہ تعلیق صحیح ہے یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نے اپنی ہونے والی بیوی کے طلاق کو ماضی کے فعل یعنی چوری کے ساتھ معلق کردیا ہے،یہ تعلیق شرعا درست ہے خواہ قسم کے ساتھ ہو یا بلا قسم ہو ۔اس کا حکم یہ ہے کہ اگر مذکورہ شخص نے ماضی میں واقعةً چوری کی ہو تو نکاح کے ساتھ ہی اس کی بیوی کو طلاق واقع ہوجائے گی جس سے نکاح ختم ہوجائے گا،ایسی صورت میں جب ایک مرتبہ طلاق واقع ہوجائے گی تو یہ تعلیق ختم ہوجائے گی،اس کے بعد دوبارہ نکاح کی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی۔واضح رہے کہ پہلی مرتبہ نکاح کی صورت میں جس عورت کو طلاق ہوگی اسی کے ساتھ دوبارہ بھی نئے مہر کے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں۔اگر ماضی میں چوری نہ کی ہو تو پھر طلاق واقع نہیں ہوگی۔
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
حوالہ جات
(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر :ج: 3 ، ص: 281)
"( ففي جميعها ) أي جميع الألفاظ ( إذا وجد الشرط انتهت اليمين ) ؛ لأنها غير مقتضية للعموم والتكرار لغة، فبوجود الفعل مرة يتم الشرط ،وإذا تم وقع الحنث، فلا يتصور الحنث مرة أخرى إلا بيمين أخرى، أو بعموم تلك اليمين ،وليس فليس ."
(رد المحتار :ج :11 ،ص: 295)
"باب التعليق ( هو ) لغة من علقه تعليقا قاموس : جعله معلقا . .. ( شرطه الملك ) حقيقة كقوله لقنه : إن فعلت كذا فأنت حر ،أو حكما ، ولو حكما ( كقوله لمنكوحته ) أو معتدته ( إن ذهبت فأنت طالق ) (أو الإضافة إليه ) أي الملك الحقيقي عاما أو خاصا ، كإن ملكت عبدا ،أو إن ملكتك لمعين فكذا، أو الحكمي كذلك ( كإن ) نكحت امرأة أو إن ( نكحتك فأنت طالق ) وكذا كل امرأة ،فلو قال : المرأة التي أتزوجها طالق تطلق بتزوجها."
ابرار احمد صدیقی
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
۲۸ / ربیع الثانی / ١۴۴۵ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ابراراحمد بن بہاراحمد | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |