021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ڈیری فارم میں شرکت کے معاہدہ کا حکم
81845شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

 دو پارٹیوں کے درمیان ڈیری فارم میں شرکت کا معاہدہ طے پایا، جس کی تفصیل سوال کے ساتھ منسلک ہے، سوال یہ ہے کہ کیا شرعاً یہ معاہدہ درست ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ڈیری فارم میں شرکت فقہی اعتبار سے شرکتِ عنان کی ایک جدید صورت معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اس میں جانور خریدے جاتے ہیں اور ان کے لیے چارہ اور ونڈا وغیرہ بھی خریدا جاتا ہے اور پھر وہ جانوروں کو کھلا کر دودھ حاصل کر کے آگے بیچ کر نفع حاصل کیا جاتا ہے، نیز ان جانوروں کو بھی کچھ مدت (جب ان کا دودھ بہت کم ہو جائے) کے بعد بیچ کر نئے جانور خریدے جاتے ہیں، اس لیے اصولی اعتبار سے شرکت عنان کی شرائط کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ڈیری فارم میں شرکت کرنا جائز ہے۔

 البتہ سوال کے ساتھ منسلک معاہدے کا جائزہ لیا گیا تواس میں درج ذیل شقیں خلافِ شرع ہیں:

  1. شق نمبر2 میں یہ لکھا ہے کہ ہر ماہ پہلی پارٹی دوسری پارٹی کو کل سرمایہ کا پانچ سے چھ فیصد نفع دے گی، جبکہ شرعاً سرمایہ کے تناسب سے نفع کی مقدار طے کرنا درست نہیں،بلکہ شرعاً فریقین کے نفع کی تعیین کے لیےحاصل شدہ  نفع کا فیصد طے کرنا ضروری ہے، لہذا حاصل شدہ نفع کا فیصدطے نہ کرنے کی وجہ سے یہ معاملہ ناجائز اور فاسد ہوا ہے۔
  2. شق نمبر8میں یہ لکھا ہے کہ اگر چھ ماہ سے پہلے کوئی گائے یا بھینس مر گئی تو سرمایہ دار کو اس کا مکمل سرمایہ واپس کیا جائے گا، یہ بھی درست نہیں، کیونکہ معاہدہ میں اس شق کی صراحت کرنے کی وجہ سے قانونا یہ معاہدے کی شرط (Condition)شمارجائے گی، جس کی بناء پر دوسری پارٹی کو قانونی مطالبے کا بھی حق حاصل ہو گا، جبکہ اس طرح نقصان برداشت کرنے  کی شرط لگانا ناجائز اور خلافِ شرع ہے،  اس شرط کا اعتبار نہیں، بلکہ دونوں فریق اپنے سرمایہ کے تناسب سے نقصان برداشت کریں گے۔

البتہ اگر معاہدہ میں اس شق کو درج نہ کیا جائے اور معاہدہ سے ہٹ کر پہلی پارٹی اپنی خوشی سےاس نقصان کو برداشت کرنے کا وعدہ کرے تو اس کی اجازت ہے۔

  1. شق نمبر9میں درج ہے کہ اگر چھ ماہ کے بعد کوئی بھینس یا گائے مر گئی تو سرمایہ کار کو ستر فیصد رقم ادا کی جائے گی اورتیس فیصد رقم نقصان کی مد میں کاٹ لی جائے گی، جبکہ شرعی اعتبار سے حکم یہ ہے کہ جتنا نقصان ہو اسی حساب سے سرمایہ کار ضامن ہو گا، لہذا گائے یا بھینس کی قیمت کم ہو یا زیادہ بہر صورت تیس فیصد رقم کاٹنے کی شر ط لگانا درست نہیں، اس لیے شرعا اس شرط کا اعتبار نہیں۔

 کیونکہ یہ پہلی پارٹی اپنی خوشی سےتبرع اور احسان کے طور پر اپنے ذمہ لے رہی ہے، اس لیے اس کی گنجائش ہے، بشرطیکہ دوسری پارٹی کی طرف سے یہ شرط نہ لگائی گئی ہو۔

اس کے علاوہ معاہدے میں فریقین کے سرمایہ کی مقدار بھی ذکر نہیں کی گئی، جبکہ شرکت کے معاملہ کےدرست ہونے کے لیے فریقین کے سرمایہ کا معلوم ہونا شرط ہے، اگر سرمایہ معلوم نہ ہو تو معاملہ ناجائز ہو گا، لہذا اس معاہدے کو ختم کر کے دوبارہ نیا معاہدہ کرنا ضروری ہے، جس میں فریقین کے سرمایہ کی مقدار بھی درج کی جائے اور  اس کے ساتھ  پیچھے ذکرکی گئی تین  شقوں کو بھی تبدیل کر دیا جائے تو شرکت کا  معاہدہ درست ہو جائے گا۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (2/ 319) دار الفكر،بيروت:
أما شركة العنان فهي أن يشترك اثنان في نوع من التجارات بر أو طعام أو يشتركان في عموم التجارات ولا يذكران الكفالة خاصة، كذا في فتح القدير، وصورتها أن يشترك اثنان في نوع خاص من التجارات أو يشتركان في عموم التجارات ولا يذكران الكفالة.
المبسوط للسرخسي (11/ 176) دار المعرفة،  بيروت:
(وعن) الشعبي - رحمه الله - قال: الربح على ما اصطلحا عليه، والوضيعة على المال.  فكذلك في الشركة، وهو مروي عن علي - رضي الله تعالى عنه - وبه نأخذ.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 59) دار الكتب العلمية،بيروت:
(ومنها) : أن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولا تفسد الشركة؛ لأن الربح هو المعقود عليه، وجهالته توجب فساد العقد كما في البيع والإجارة.
(ومنها) : أن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة، لا معينا، فإن عينا عشرة، أو مائة، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لا يحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلا يتحقق الشركة في الربح.
الفتاوى الهندية (2/ 320) دار الفكر، بيروت:
اشتركا فجاء أحدهما بألف والآخر بألفين على أن الربح والوضيعة نصفان فالعقد جائز والشرط في حق الوضيعة باطل، فإن عملا وربحا فالربح على ما شرطا، وإن خسرا فالخسران على قدر رأس مالهما، كذا في محيط السرخسي.
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (5/ 3945) دار الفكر - سوريَّة – دمشق:وإن شرط على العامل ضمان رأس المال إن تلف، بطل الشرط والعقد صحيح عند الحنفية والحنابلة. وبناء عليه: يكون تشغيل المال على حساب الربح مع ضمان رأس المال صحيحا والشرط باطل.

 محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

 30/ربیع الثانی 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے