021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مغصوبہ زرعی زمین کے منافع کا حکم(جدید فتوی)
81832غصب اورضمان”Liability” کے مسائل متفرّق مسائل

سوال

زید کا گھر اور ایک ایکڑ زمین عمرو نے غصب کی اور ایک سال تک اس میں رہا،لیکن زمین کو کاشت نہیں کیا اور اس ایک سال میں عمرو نے اس گھر کے استعمال کے دوران بجلی کا بل بھی ادا نہیں کیا۔ اب زید نے عمر و پر دعوی کیا ہے کہ تم نے میرے گھر اور زمین کو غصب کر کے ایک سال اس سے نفع اٹھایا ہے ، لہذا اس گھر اور اس ایک ایکٹر زمین کا جتنا نفع بنتا ہے، وہ واپس کرو اور ایک سال کی بجلی کابل جو دوران استعمال ادا نہیں کیا اس کو بھی ادا کرو، کیا زید کو یہ حق ہے کہ وہ عمرو سے اپنے گھر اور زمین کا نفع لے ؟ اور ایک سال بجلی کا بل ادا کر ناکس کے ذمے لازم ہے ؟

نوٹ: سائل نے مذکورہ گھر اپنے ذاتی استعمال کے لیے بنایا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں غاصب عمرو کا زید سے زرعی زمین اور گھر غصب کرنا ہرگز جائز نہیں تھا، لہذا یہ زمین اور مکان فوری طور پر زید کےحوالے کرنا ضروری ہے اور اپنے اس ناجائز فعل پر اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ واستغفار کرنا اور آئندہ کے لیے اس طرح کے فعل سے اجتناب بھی لازم ہے، کیونکہ حدیثِ پاک میں تصریح کی گئی ہے کہ کسی مسلمان کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر حلال نہیں ہے۔

جہاں تک گزشتہ سال کے ضمان کا تعلق ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ سال بھر کے جو بجلی کے بلز عمرونے ادا نہیں کیے، ان کی ادائیگی عمروکے ذمہ لازم ہے، کیونکہ بجلی اور گیس وغیرہ کےاخرجات استعمال کرنے والے کے ہی ذمہ لازم ہوتے ہیں، لہذا یہ رقم ادا کرنا تو بہر صورت اس کے ذمہ لازم ہے۔

اس کے علاوہ گھر چونکہ سائل نے اپنی ذاتی رہائش کے لیے بنایا تھا، کرایہ پر دے کر ذریعہ آمدن بنانا مقصود نہیں تھا اور حنفیہ کے نزدیک غصب شدہ چیز کے منافع عام حالات میں مضمون نہیں ہوتے، البتہ اگر مالِ یتیم یا مالِ وقف یا وہ چیز معد للاستغلال (معد للاستغلال کا مطلب یہ ہے کہ چیز کو ذریعہ آمدن کے طور پر استعمال کرنا، جیسے گھر وغیرہ کرایہ پر دے کر ماہانہ کرایہ حاصل کرنا) ہو تو ان تین صورتوں میں مارکیٹ کے عرف کے مطابق اس کا ماہانہ کرایہ غاصب کے ذمہ لازم ہوتا ہے۔رہائشی گھر چونکہ ان تین چیزوں میں داخل نہیں، اس لیے اس کا کرایہ  بطورِ ضمان غاصب کے ذمہ لازم نہیں ہو گا۔البتہ زرعی زمین چونکہ خود ذریعہٴ آمدن کے طورپر استعمال ہوتی ہے، اس لیے اس کو معد للاستغلال کے تحت شامل کر کے لوگوں کے عرف کے مطابق غاصب کو گزشتہ سال کے کرایہ کا ضامن ٹھہرانا درست ہے۔

نوٹ:

چیز کے معد للاستغلال ہونے کی صورت میں غاصب پر ضمان کی متقدمین حنفیہ نےتصریح کی ہے، البتہ معد للاستغلال ہونے کی تشریح متقدمین کی کسی عبارت میں نہیں ملی،  البتہ ماضی قریب میں لکھی گئی کتب حاشیہ ابن عابدین، مجلة الاحکام العدلیہ اور مجلہ کی شروح میں اس کی وضاحت اور تشریح یہ ذکر کی گئی ہے کہ چیز کو تین سال تک کرایہ پر دینا معد للاستغلال ہونے کی علامت ہے، نیز یہ بھی مذکور ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی چیز معد للاستغلال یعنی  ذریعہ آمدن بنانے کی نیت سے خریدی یا کوئی عمارت بنائی تو وہ بغیر کسی شرط یعنی اجارہ پر دیے بغیر ہی صرف نیت سے ہی معد للاستغلال شمار ہو گی اور اگراس نے وہ چیز اپنے ذاتی استعمال یا رہائش کے لیے خریدی یا تعمیر کی اور پھر اس کی نیت بدل گئی  تو وہ دو صورتوں میں معد للاستغلال شمار ہو گی:

اول:  تین سال تک کے لیے کرائے پر دے دے۔

دوم:  لوگوں کو بتا دےکہ یہ چیز میرا ذریعہٴ آمدن ہے اور لوگوں میں یہ بات معروف ہو جائے۔

 نیزعلامہ خالد اتاسی رحمہ اللہ نے طحطاوی کے حوالہ سے زمین کو مزارعت پر دینا بھی معد للاستغلال میں شامل کیا ہے۔(ديكھيے عبارات:4اور5)اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زمین خود کاشت کرکے پیداوار حاصل کرے اور وہی زمین اس کا ذریعہٴ معاش ہو، پھر کوئی شخص ایسی زمین کو غصب کر لے تو ایسی صورت میں کیا اس زمین کو معد للاستغلال میں شمار کر کے غاصب کے ذمہ اس کے منافع کا ضمان لازم ہو گا یا نہیں؟ تو فقہائے کرام رحمہم اللہ کی عبارات میں اس کی تصریح نہیں ملی، البتہ درج ذیل وجوہ سے ایسی زمین کے منافع کا ضمان غاصب کے ذمہ لازم کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے:

  1. علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ شیخ الاسلام عطاء بن حمزہ  رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کی زرعی زمین پر اس کی اجازت کے بغیرفصل بیج دی تو کیا زمین کے مالک کو پیداوار میں سے مطالبے کا حق حاصل ہو گا؟ تو انہوں نے فرمایا جی ہاں! اگر اس بستی والوں کا عرف زمین کو نصف،ثلث، ربع یا پیداوار کے کسی مخصوص حصے کی پیداوار کے عوض زمین کی کاشت کاری کرتے ہوں تو اسی حساب سے  مالک کو غاصب سے پیداوار سے مطالبے کا حق حاصل ہو گا۔(ديكھيے عبارات:6اور7)

 مذکورہ بالا عبارت سے معلوم ہوا کہ زرعی زمین کا ضمان غاصب سے لیا جا سکتا ہے۔نیز یہ عبارت حنفیہ کی ان عبارات کے متعارض نہیں ہے جن میں مغصوبہ زمین کی پیداوار کو بلانیتِ ثواب صدقہ کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے،  کیونکہ مغصوبہ زمین کی پیداوار کو مالک کے حق کی وجہ سے صدقہ کرنے کا حکم دیا گیا، لہذا اگر غاصب عرف کے مطابق مالک کو اس کا حق یعنی پیداوار کا ثلث یا ربع وغیرہ ادا کر دے تو پھر صدقہ کرنا ضروری نہیں ہو گا۔

  1. حنفیہ کی بعض عبارات میں فسادِ زمانہ کے پیشِ نظر غاصب کے ذمہ مغصوبہ چیز کے منافع کا مطلقاً (خواہ وہ چیز معد للاستغلال ہو یا نہ ہو)ضمان  واجب کیا گیا ہے، جیسا کہ علامہ ابن الامیر الحاج رحمہ اللہ نےتصریح کی ہے اور غلبہٴ غصب كے وقت علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف معلوم ہوتا ہے،(ديكھيے عبارات:1تا3) نیزائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کا بھی مغصوبہ چیز کے منافع مطلقا مضمون ہیں، لہذا زرعی زمین کو اگر بالفرض معد للاستغلال میں شمار نہ کیا جائے تو بھی ضرورت کے پیشِ نظر زرعی زمین کے غصب  میں ان عبارات کے مطابق فتوی دینے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔
  2. کتبِ لغت کی روشنی میں لغوی معنی کے اعتبار سے زرعی  زمین پربھی معد للاستغلال کا معنی صادق آتا  ہے، کیونکہ عربی لغات میں استغلال کے معنی میں دو چیزوں کا ذکرکیاگیا ہے:1۔ چیزکوکرایہ پر دے کر اجرت حاصل کرنا 2۔ زمین سے غلہ یعنی  پیداوار حاصل کرنا۔(ديكھيے عبارات:9اور10)

نیزآج کل کے عرف میں زرعی زمین بھی ذریعہٴ معاش کے طور پر استعمال کی جاتی ہے، جیسا کہ عام طور پر دیہاتوں میں اسی سے لوگوں کے سال بھر کے اناج  کاانتظام وابستہ ہوتا ہے،لہذا موجودہ زمانے میں لوگوں کے عرف کی بناء پر زرعی زمین کو بھی معد للاستغلال میں شمار کرکے اس کے منافع کے مضمون ہونے کا حکم لگایا جا سکتا ہے۔

اس لیے صورتِ مسئولہ میں  زرعی زمین کےغصب میں مطلقاً اجرتِ مثل کے وجوب کا حکم لگایا گیا ہے، کیونکہ مقاصدِ شریعت کو مدِنظر رکھتے ہوئےآج کے زمانہ کے حساب سے یہی بات زیادہ قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص کسی کی ذریعہٴ آمدن والی چیزسے اس کی اجازت کے بغیر فائدہ استعمال کرے تو اس پر عدل وانصاف کے تقاضا کے مطابق  منافع کا ضمان یعنی اجرتِ مثل واجب ہونی چاہیے، جیسا کہ دیگر مذاہبِ ثلاثہ کا موقف ہے۔واللہ اعلم بالصواب


تنبیہ:واضح رہے کہ مغصوبہ زرعی زمین کےمنافع کےحکم میں البحر کی عبارت کی بناء پر مفتی محمد حسین خلیل خیل صاحب مدظلہم کی رائے بھی جوازکی ہے، البتہ دیگر وجوہ ضمان میں شرح صدر نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے فتوی پر دستخط  نہیں کئے۔(محمد نعمان خالد)

حوالہ جات
  1. التقرير والتحبير علي التحريرلشمس الدين محمد بن محمد المعروف بابن أمير حاج الحنفي (المتوفى: 879 هـ) (2/ 130) دار الكتب العلمية:
وفي جامع الفتاوى نقلا عن المحيط الصحيح لزوم الأجران معدا للاستغلال بكل حال وحكى بعضهم الإجماع على ضمان المنافع بالغصب والإتلاف إذا كان العين معدا للاستغلال بل وسيذكر المصنف في ذيل الكلام على العلة من مباحث القياس أنه ينبغي الفتوى بضمان المنافع مطلقا لو غلب غصبها وهو حسن كما نذكره ثمة إن شاء الله تعالى، والله سبحانه أعلم.
2)التقرير والتحبير علي تحرير الكمال بن الهمام (3/ 204) دار الكتب العلمية:
(وفتوى المتأخرين بالضمان بالسعاية بخلاف القياس استحسان لغلبة السعاة) بغير الحق إلى الظلمة في زماننا وبه يفتى لأن مجرد وكول الأمر إلى القاضي لا يجدي في هذا المطلوب في زماننا.
قال المصنف (وينبغي مثله) أي الإفتاء بضمان إتلاف المنافع مطلقا زمانا ومكانا (ولو غلب غصب المنافع) مطلقا فيهما وإن كان على خلاف القياس في باب الضمان زجرا للغصبة عن ذلك وقد أسلفناه في أواخر التقسيم الأول من أقسام الوقت المقيد به الواجب تقييد بعضهم ذلك بالأوقاف وأموال اليتامى وحكاية بعضهم الإجماع على ضمان المنافع بالغصب والإتلاف إذا كان العين معدا للاستغلال وإذا كان الموجب لذلك الزجر للغصبة والحفظ لأموال الضعفة فلا بأس بالفتوى بضمانها حينئذ على الإطلاق لاحتياج ما سوى هؤلاء إلى هذا الارتفاق وحسما لمادة هذا الفساد بين العباد.
3)تيسير التحرير (4/ 58) محمد أمين بن محمود البخاري المعروف بأمير بادشاه الحنفي (المتوفى: 972 هـ)دار الكتب العلمية – بيروت:
(وفتوى المتأخرين بالضمان بالسعاية) أي بأن يسعى في حق غيره بغير حق إلى حاكم ظالم فيغرمه المال ظلما (بخلاف القياس) لتخلل الفعل الاختياري من الظالم، وهو الأخذ ظلما بين السعاية وإتلاف المال، وإنما أفتوا (استحسانا لغلبة السعاة) بغير الحق إلى الظلمة في زماننا، وبه يفتى سدا لهذا الباب (وينبغي مثله) أي الافتاء بالضمان، بخلاف القياس استحسانا (لو غلب غصب المنافع) فإنه على خلاف القياس لعدم كونها محرزا لتجددها، والغصب إثبات اليد المبطلة، وإبطال اليد المحقة، وذلك فرع في الإحراز، وإنما قال ينبغي إلى آخره زجرا للغصبة عن ذلك.
  1. مجلة الأحكام العدلية (ص: 80) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
(المادة 417) : المعد للاستغلال هو الشيء الذي أعد وعين على أن يعطى بالكراء كالخان والدار والحمام والدكان من العقارات التي بنيت واشتريت على أن تؤجر وكذا كروسات الكراء ودواب المكارين , وإيجار الشيء ثلاث سنين على التوالي دليل على كونه معدا للاستغلال. والشيء الذي أنشأه أحد لنفسه يصير معدا للاستغلال بإعلامه الناس بكونه معدا للاستغلال.
5)شرح المجلة لمحمد خالد الأتاسي (488/2) مكتبه رشيدية، كوئٹة:
حاصله مااشتراه المالك أو بناه لأجل استغلاله يكون معدا للاستغلال بلا شرط، وأما ما بناه أو شراه لأجل أن يسكنها أو يستعملها لنفسه، فلايكون معدا للاستغلال إلا بأن يؤجره ثلاث سنوات فأكثر أويعلم الناس بكونه قد أعده للاستغلال.
وتقييد الإجارة بثلاث سنوات فأكثر إنما هو في الدار ونحوها وأمافي الأرض فقد نقل الطحطاوي عن الذخيرة: مانصه: قالوا إن كانت الأرض في قريةاعتاد أهلها زراعة أرض الغير وكان صاحبها لايزرع بنفسه بل يدفعها مزارعة فذلك على المزارعة.
درر الحكام شرح مجلد الأحكام (449/1)۔ دارالجيل، بيروت:
أما المال الذي أنشأه صاحبه لنفسه فشرط إلزام مستعمله بأجر المثل العلم بأنه معد للاستغلال ولذلك قال في المتن (والشيء الذي أنشأه أحد لنفسه يصير معدا للاستغلال بإعلامه الناس بكونه معدا للاستغلال).
6)البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 128) دار الكتاب الإسلامي،بيروت:
وسئل الشيخ عطاء بن حمزة - رحمه الله تعالى - عمن زرع أرض إنسان ببذر نفسه بغير إذن صاحب الأرض هل لصاحب الأرض أن يطالب بحصة الأرض قال نعم إن جرى العرف في ذلك أنهم يزرعون الأرض بثلث الخارج أو ربعه أو نصفه أو شيء مقدر شائع يجب ذلك القدر الذي جرى به العرف.
7)الفتاوى الهندية (5/ 144) دار الفكر،بيروت:
وسئل شيخ الإسلام عطاء بن حمزة عمن زرع أرض إنسان ببذر نفسه بغير إذن صاحب الأرض هل لصاحب الأرض أن يطالبه بحصة الأرض قال نعم إن جرى العرف في تلك القرية أنهم يزرعون الأرض بثلث الخارج أو ربعه أو نصفه أو بشيء مقدر شائع يجب ذلك القدر الذي جرى به العرف.
8)الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (6/ 4793) دار الفكر - سوريَّة – دمشق:
منافع المغصوب وغلته: لا يضمن الغاصب عند الحنفية منافع ما غصبه من ركوب الدابة، وسكنى الدار، سواء استوفاها أم عطلها؛ لأن المنفعة ليست بمال عندهم؛ ولأن المنفعة الحادثة على يد الغاصب لم تكن موجودة في يد المالك، فلم يتحقق فيها معنى الغصب، لعدم إزالة يد المالك عنها. وهذا فيما عدا ثلاثة مواضع يجب فيها أجر المثل، في اختيار متأخري الحنفية، وعليه الفتوى، وهي أن يكون المغصوب وقفاً، أو ليتيم، أو معداً للاستغلال بأن بناه صاحبه أو اشتراه لذلك الغرض. وإن نقص المغصوب أي ذاته باستعمال الغاصب غرم النقصان، لاستهلاكه بعض أجزاء العين المغصوبة، كما سأبين.
وأما غلة المغصوب كما سيأتي بيانه: فلا تطيب في رأي أبي حنيفة ومحمد للغاصب؛ لأنه لا يحل له الانتفاع بملك الغير. وقال أبو يوسف وزفر: تطيب له.
وقال المالكية في المشهور: يضمن الغاصب غلة مغصوب مستعمل، أي أنه يضمن غلة المغصوب ذاته الذي استعمله الغاصب، سواء كان المغصوب عقاراً من دور أو أرض سكنها أو زرعها أو كراها، أم منقولاً: حيواناً أو غيره، كراه أو استعمله، ولا يضمن ما نشأ من غير استعمال، ولو عطّله على صاحبه........... وقال الشافعية والحنابلة: يضمن الغاصب منفعة المغصوب، وعليه أجر المثل، سواء استوفى المنافع، أم تركها تذهب، وسواء أكان المغصوب عقاراً كالدار، أم منقولاً كالكتاب والدابة.
9)لسان العرب (11/ 504) دار صادر،بيروت:
والغلة: واحدة الغلات. واستغل عبده أي كلفه أن يغل عليه. واستغلال المستغلات: أخذ غلتها. وأغلت الضيعة: أعطت الغلة، فهي مغلة إذا أتت بشيء.
10) معجم المعاني في العربية:
الغَلّة : الدَخْلُ من كراء دار أَو ريع أَرض والجمع : غلاّت، وغِلال. (فقهية)
ما يحصل من ثمرة الأرض ، أو أجر أو كسب الغلام. (فقهية) [1]
11)الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 187) دار الفكر،بيروت:
واختلفوا في تفسير النقصان قال نصير بن يحيى: إنه ينظر بكم تستأجر هذه الأرض قبل الاستعمال وبعده، فيضمن ما تفاوت بينهما من النقصان، وقال محمد بن سلمة: يعتبر ذلك بالشراء يعني أنه ينظر بكم تباع قبل الاستعمال وبكم تباع بعده فنقصانها ما تفاوت من ذلك فيضمنه وهو الأقيس. قال الحلواني: وهو الأقرب إلى الصواب وبه يفتى كما في الكبرى؛ لأن العبرة لقيمة العين لا المنفعة ثم يأخذ الغاصب رأس ماله وهو البذر وما غرم من النقصان، وما أنفق على الزرع ويتصدق بالفضل عند الإمام ومحمد فلو غصب أرضا فزرعها كرين فأخرجت ثمانية، ولحقه من المؤنة قدر كر ونقصها قدر كر فإنه يأخذ أربعة أكرار ويتصدق بالباقي.
https://www.almaany.com/ar/dict/ar-ar/%D9%84%D8%BA%D9%84%D8%A9/ [1]

  محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراتشی

30/ربیع الثانی 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے