021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مائیگرین سر درد کے مریض کے روزوں کا کفارہ
81788روزے کا بیاننذر،قضاء اور کفارے کے روزوں کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام ان مسائل کے بارے میں :

  1.  ایک شخص جس کو مائیگرین کا مسئلہ ہے اور وہ اس کی دوا بھی استعمال کرتا ہے، مائیگرین ہونے کی بنیادی وجوہات میں کھانے پینے کی کمی یا اس کے اوقات میں تبدیلی اور سونے جاگنے کے معمول میں تبدیلی شامل ہیں۔ان میں سے کسی بھی حالت کا اگر اس شخص کو سامنا کرنا پڑ جائے ،تو مائیگرین کا درد شروع ہو جاتا ہے ،جو کہ مسلسل تین دن تک رہتا ہے۔جس کی وجہ سے نوکری سے بھی چھٹی لینی پڑتی ہے اور دیگر عبادات اور معمولات میں بھی کافی گہرا اثر پڑتا ہے۔ مندرجہ بالا ساری صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بارے میں وضاحت فرمائیں کہ اگر ایسے شخص کو دو سے تین رمضانوں کے کچھ فرض روزوں کا کفارہ ادا کرنا ہو، تو کیسے ادا کرے۔ جیسا کہ علماء سے سنا ہے کہ کفارے میں 60 روزے مسلسل رکھنے ہوتے ہیں جو کہ اس شخص کے لیے مائیگرین کا سبب بن سکتے ہیں اور اگر یہ شخص کسی انجکشن کا استعمال بھی کرتا ہے تو مائگرین میں دی جانے والی دوا کا ذہن پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے جو کہ صحت کے اعتبار سے بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے ،جبکہ یہ شخص ابھی صرف درد ہونے کی صورت میں ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق دوا کا استعمال کرتا ہے۔ لہذا ایسی صورت میں کفارے کے روزوں کے بارے میں کیا حکم ہے کہ اگر ایسا شخص فدیہ دیدے تو اس کی طرف سے ایسا فدیہ دینا درست ہوگا اور فدیہ کی ادائیگی کے بعد یہ اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ سمجھے یا نہیں؟
  2. اور یہ بھی رہنمائی فرمائیں کہ متعدد رمضانوں کے روزے توڑنے پر کیا ایک ہی دفعہ کفارہ دینا کافی ہوگا یا ہر روزے کا یا ہر رمضان کا الگ الگ کفارہ ادا کرنا ہوگا؟ ایک بات واضح رہے کہ رمضان المبارک کے روزوں میں کبھی کبھار کسی ایک روزے میں مائیگرین ہونے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے افطار کے قریب وقت میں لیکن الحمدللہ رمضان کی برکت سے مائیگرین کی شکایت کم ہی رہتی ہے، لیکن اس کے علاوہ عام روزوں میں اس شکایت کے بڑھنے کا امکان ہوتا ہے کیونکہ نوکری پر بھی جانا ہوتا ہے اور ملازمت کے اوقات میں کوئی کمی بھی نہیں ہوتی تو اس سب صورتحال میں کافی پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ برائے مہربانی مندرجہ بالا تمام صورتحال پر شرعی رہنمائی فرما کر ممنون و مشکور فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  1. جس شخص پر رمضان کا روزہ فرض ہو     اگر وہ رمضان میں روزہ رکھ کر بغیر کسی عذر کے توڑ دے تو ایسے شخص پر کفارہ واجب ہوتا ہے۔اگر کوئی رمضان کا روزہ رکھتا ہی نہیں یا کسی معقول عذر کی وجہ سے توڑ تا ہے تو اس پر قضاء تو ہوتی ہے لیکن کفارہ نہیں ہوتا ۔اگر آپ کے ذمہ واقعۃ   کفارہ لازم ہے تو ڈاکٹر سے رائے لیں ،اگر وہ یہ رائے دے کہ آپ کے لیے روزہ رکھنا ممکن  نہیں تو  آپ فدیہ دیں۔اگرڈاکٹر کہتا ہے کہ آپ روزہ  رکھ سکتے ہیں یا  ائندہ روزے رکھنے کی امید ہو تو پھر  فدیہ دینا جائز نہیں ہوگا ۔
  2.       اگر ایک سے زائد روزے  کھانے پینے سے توڑے ہیں اور اس وجہ سے متعدد کفارے  لازم ہوئے ہیں ، چاہے ایک رمضان کے متعدد روزے ہوں یا متعدد رمضانوں کے متعدد روزے ہوں تو ان سب روزوں کے بدلے جن کا کفارہ باقی ہے ایک کفارہ ادا کرنا کافی ہوجائے گا۔اگر ایک سے زائد روزے   بیوی سے صحبت کی وجہ سے ٹوٹے ہیں اور اس کا کفارہ لازم ہوا ہے  تو اگر ایک ہی سال کے رمضان میں متعدد مرتبہ صحبت کی ہے تو ایک کفارہ کافی ہوجائے گا بشرطیکہ  پہلے والے روزے کا کفارہ ادا نہ کیا ہو اور اگر الگ الگ رمضانوں میں صحبت کرنے کی وجہ سے کفارہ لازم ہو اہے تو  پھر الگ الگ کفارہ ادا کرنا ہوگا ،ایک کفارہ دونوں کے لیے کافی نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
قال عبد الحي اللكنوي  :الأصل :أن المفطر إذا وجد صورة و معني :يجب القضاء والكفارة معا.
وإذا وجد صورة لا معني ،أو معني لا صورة :يجب القضاء دون الكفارة .
وإذا لم يوجد لا صورة ولامعني :لايجب القضاء دون الكفارة .(حاشية علي الهداية :344/1)
قال اللہ تعالی: فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ .......فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ .......فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا .(سورة المجادلة :4,3)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ : (وکفر ...ککفارة المظاهر) مرتبط بقوله: وکفر أي مثله في الترتیب؛ فیعتق أولاً، فإن لم یجد، صام شهرین متتابعین، فإن لم یستطع أطعم ستین مسکیناً.(رد المحتار:2/412)
قال جمع من العلماء  رحمھم اللہ :کفارۃ الفطر، وکفارۃ الظہار واحدۃ ، وھي عتق رقبۃ مؤمنۃ أو کافرۃ فإن لم یقدر علی العتق فعلیہ صیام شہرین متتابعین، وإن لم یستطع فعلیہ إطعام ستین مسکینا کل مسکین صاعا من تمر أو شعیر أو نصف صاع من حنطۃ. ( الھندیۃ: 1/215)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله :ولو تكرر فطره ولم يكفر للأول يكفيه واحدة ولو في رمضانين عند محمد، وعليه الاعتماد، بزازية ومجتبى وغيرهما، واختار بعضهم للفتوى أن الفطر بغير الجماع تداخل وإلا لا.(رد المحتار:412/2)
قال جمع من العلماء  رحمھم اللہ :من جامع عمداً في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة. ...إذا أكل متعمدا ما يتغذى به أو يتداوى به يلزمه الكفارة، وهذا إذا كان مما يؤكل للغذاء أو للدواء.(الفتاوی الھندیۃ :1/205) 
قال علامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ:ولو جامع مرارا في أيام رمضان واحد، ولم يكفر كان عليه كفارة واحدة؛ لأنها شرعت للزجر، وهو يحصل بواحدة ،فلو جامع وكفر، ثم جامع مرة أخرى، فعليه كفارة أخرى في ظاهر الراوية؛ للعلم بأن الزجر لم يحصل بالأول،ولو جامع في رمضانين فعليه كفارتان، وإن لم يكفر للأولى في ظاهر الرواية، وهو الصحيح.(البحر الرائق:2/ 298)
قال العلامۃ الکساني رحمہ اللہ :لو جامع في رمضان متعمدًا مرارًا بأن جامع في يوم ثم جامع في اليوم الثاني ثم في الثالث ولم يكفر فعليه لجميع ذلك كله كفارة واحدة عندنا....... ولو جامع في يوم ثم كفر ثم جامع في يوم آخر فعليه كفارة أخرى في ظاهر الرواية.( بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع101/2:)
قال العلامة إبن عابدين رحمه اللہ : قوله: (ولم يكفر للأول) أما لو كفر فعليه أخرى في ظاهر الرواية للعلم بأن الزجر لم يحصل بالأولى. قوله: (وعليه الاعتماد) نقله في البحر عن الأسرار ونقل قبله عن الجوهرة لو جامع في رمضانين فعليه كفارتان وإن لم يكفر للأولى في ظاهر الرواية وهو الصحيح.
                                                                                                                                                                       (الدرالمختارمع ردالمحتار:2/ 413)
قال أبوبكر بن علي بن محمد:إذا جامع في يوم من رمضان فلم يكفر حتى جامع في يوم آخر من ذلك الشهر فعليه كفارة واحدة.(جوهرة النيرة :1 / 449)
قال العلامۃ الحصکفي رحمه اللہ :أفطر في رمضان في يوم ولم يكفر حتى أفطر في يوم آخر فعليه كفارة واحدة  ( الدر المختار للحصفكي: 7 / 322)
قال جمع من العلماء رحمهم اللہ :وأما وجوب الفداء :فشرطه العجز عن القضاء لا ترجي معه القدرة في جميع عمره .(بدائع الصنائع:105/2)

محمدمفاز

دارلافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی

2 جمادی الاولی 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مفاز بن شیرزادہ خان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے