021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"بلا نیتِ طلاق 100مرتبہ طلاق دینے کا حکم”نعم
81859طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

ایک عورت اپنے میکے میں رہنے گئی، شوہر نے فون کر کے کہا کہ دوپر تک گھر آجاؤ، لیکن بیوی نہیں آئی، شوہر نے فون کر کے کہا کہ اب نہیں آنا، اگر گھر میں آؤگی تو تمہیں سو طلاق۔ بیوی عصر کے بعد گھر آگئی اور رات اپنے گھر گزاری، صبح شوہر نے فون کر کے کہا کہ گھر سے باہر چلی جاؤ اور کچھ فاصلہ طے کر کے دوپہر سے پہلے آجانا۔شوہر یہ حیلہ کے طور پر کہا۔ مزید شوہر کا کہنا ہے کہ 100مرتبہ طلاق سے اس کی نیت طلاق دینا نہیں تھا، بلکہ فقط ڈرنا مقصود تھا، سوال یہ ہے کہ کیا طلاق واقع ہوگئی یا نہیں؟ کوئی ایسی سورت بھی بیان کریں جس سے رجوع ہو سکتا ہو۔ شوہر اور بیوی کا ایک بچہ بھی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں شوہر کے اپنی بیوی کو یہ الفاظ"اب نہیں آنا، اگر گھر میں آؤگی تو تمہیں سو طلاق" طلاق عورت کے گھر میں آنے کی شرط کے ساتھ معلق ہو گئی، اس کے بعد جب عورت گھر میں آئی تو شرط پائے جانے کی وجہ سے اس عورت پر تین طلاقیں واقع ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہو گئی، اب رجوع یا دوبارہ نکاح بھی نہیں ہو سکتا، نیز سوال میں شوہر نے جو حیلہ اختیار کیا ہے کہ "ابھی گھر سے باہر چلی جاؤ اور کچھ فاصلہ طے کر کے دوپہر سے پہلے آجانا بھی شرعًا معتبر نہیں اور چونکہ یہ صریح الفاظ سے طلاق دی گئی ہے، اس لیے اس میں نیت کا اعتبار نہیں، لہذا اب ان دونوں کا اکٹھے رہنا حرام ہو چکا ہے، البتہ اگر یہ عورت عدت گزارنے کے بعد طلاق دینے کی شرط کے بغیر کسی اور شخص سے نکاح کرے، وہ شخص اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات (ہمبستری) بھی قائم کرے، اس کے بعد وہ اپنی مرضی سے اس کو طلاق دیدے یا وہ شخص فوت ہو جائے تو اس کی عدت گزارنے کے بعد فریقین باہمی رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں، ورنہ نہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ شرعًا طلاق کی زیادہ سے زیادہ حد تین ہے، اس سے زائد طلاقیں دینا اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے ساتھ صریح مذاق اور انتہائی جہالت کی بات ہے، جس کی شریعت ہرگز اجازت نہیں دیتی، لہذا اس شخص کا اپنی بیوی کو سو طلاقیں دینا ناجائز اور گناہ کبیرہ ہے، اس پر احادیثِ مبارکہ میں بھی تنبیہ فرمائی گئی ہے، لہذا اس شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس قبیح اور نازیبا فعل پر اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ واستغفار کرے اور آئندہ کے لیے اس طرح کی حرکت کرنے سے مکمل طور پر اجتناب کرے۔

حوالہ جات
صحيح البخاري (7/ 43، رقم الحدیث: 5261) دار طوق النجاة:
حدثني محمد بن بشار، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال: حدثني القاسم بن محمد، عن
عائشة، أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم:
أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول»
صحيح البخاري (7/ 43، رقم الحدیث: 5264) دار طوق النجاة:
وقال الليث: حدثني نافع، قال: كان ابن عمر، إذا سئل عمن طلق ثلاثا، قال: «لو طلقت مرة أو مرتين، فإن النبي صلى الله عليه وسلم أمرني بهذا، فإن طلقتها ثلاثا حرمت حتى تنكح زوجا غيرك.
الفتاوى الهندية (1 / 473) دار الفكر، بیروت:وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراتشی

4/جمادی الاولیٰ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے