021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سوتیلی ماں اور سوتیلی بہن کو زکوة دینے اور ان کے حقوق کا بیان
81883معاشرت کے آداب و حقوق کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

جی میرےوالد صاحب تقریباً 2005ء میں وفات پاچکے ہیں،میری دو مائیں ہیں، اور ایک سوتیلی بہن جوکہ والد صاحب کےوفات سےقبل شادی شدہ تھی، ہم نےاس وقت اپنے رسم ورواج کے مطابق اسے کچھ سازوسامان اورایک عدد بچھڑی (گائے کی بچی)بھی دی تھی۔

والدصاحب کی وفات کے  تقریبا دو سال بعد میری سوتیلی ماں اپنی بیٹی کی گھر چلی ہے اور وہاں رہائش پزیر ہے، جبکہ میری والدہ بھی حیات ہے۔اب پوچھنا یہ ہے کہ میری سوتیلی ماں اوربہن کے میرے اوپر کیا حقوق ہیں؟  میں تین چار سالوں سے ان کو زکوة بھی دیتاہوں تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا زکوة دینا درست ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت میں رشتہ داروں کے بہت زیادہ حقوق بیان کیے گئے ہیں، خصوصاً محرم رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کی اور بھی زیادہ تاکید کی گئی ہے، لہذا آپ کو چاہیے کہ اپنی سوتیلی والدہ اور سوتیلی بہن کے درج ذیل حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں:

  1. ان کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ اپنے والد کا مکمل ترکہ شریعت کے مطابق تقسیم کر کے ان کا شرعی حصہ ان تک پہنچائیں، بغیر کسی معتبر وجہ کے ترکہ کی تقسیم میں اتنا عرصہ تاخیر کرنا بالکل جائز نہیں۔
  2. اگر وہ پیسوں وغیرہ کی محتاج ہوں تو وقتا فوقتا ان کا مالی تعاون کرتے رہیں۔
  3. اگر وہ بیمار ہوں تو ان کی تیمار داری کریں، اگر ان کو کوئی حادثہ پیش آجائے تو ان کے غم میں برابر کے شریک ہوں۔
  4. کوئی خوشی جیسے بچے کی ولادت وغیرہ کے موقع پر انہیں مبارک باد پیش کریں۔
  5. اگر وہ پیسوں کے محتاج نہ ہوں تو بھی وقتاً فوقتاً ان کو ہدیہ اور تحفہ دیتے رہیں، اس سے رشتہ داروں کے درمیان محبت ہوتی ہے اور آپس کی نفرتوں اور عداوتوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔

باقی جہاں تک ان کو زکوة دینے کا تعلق ہے تو چونکہ ان کے ساتھ آپ کا اصول وفروع کا تعلق نہیں ہے،

اس لیے ان کو زکوة دینا درست ہے، بشرطیکہ جس کو زکوة دی جائے  وہ ہاشمی یعنی سید نہ ہو اور اس  کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر سونا چاندی، نقدی، مال تجارت اور ضرورت سے زائد گھریلو سامان موجود نہ ہو۔ نیز زکوة دینے کے ساتھ ساتھ ان کے دیگر حقوق ادا کرنا بھی ضروری ہے، صرف زکوة دینے پر اکتفاء کرنا درست نہیں۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 189) دار الفكر،بيروت:
"ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا."
  الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2/ 346) دار الفكر-بيروت:
ويجوز دفعها لزوجة أبيه وابنه وزوج ابنته تتارخانية.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراتشی

5/جمادی الاولی 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے