021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کو تین طلاقیں لکھ کر دینے کا حکم
79977طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

چند دن پہلے میرا اپنی بیوی سے کچھ تنازعہ ہوا۔ میں کچھ دوائیوں کے اثر میں تھا، میں غصے کی حالت میں اپنی بیوی کو یہ تحریر لکھ کے دے آیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ کا میرے ساتھ گزراہ مشکل ہو رہا ہے تو یہ تحریر پڑھ لیں۔ وہ تحریر یہ ہے:

"میں آج تمہاری خواہشات، ضد اور انا کی وجہ سے اشہد ولد قریشی حفظہ ناز ولد نازم علی کو میں اپنے ہوش و حواس میں بنا کسی دباؤ کے طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں۔"

اب وہ اور اس کے گھر والے اس تحریر کو لیکر بہت پریشان ہیں جبکہ میری بیوی نے یہ تحریر نہیں پڑھی، صرف دیکھی ہے اور اس وقت وہ حالتِ حیض میں بھی تھیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

طلاق واقع ہونے کے لیے بیوی کا الفاظِ طلاق کو سننا یا (تحریری صورت میں) پڑھنا ضروری نہیں ہے، اصل مدار شوہر کے الفاظ ہوتے ہیں۔ اسی طرح بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دینا اگرچہ خلاف سنت ہے اور منع ہے تاہم اگر کوئی شخص حیض کی حالت میں بیوی کو طلاق دیتا ہے تو تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا صورتِ مسؤلہ میں شوہر نے جو الفاظِ طلاق تحریری طور پر استعمال کیے ہیں اور بیوی نے اس کو پڑھا بھی نہیں ہے اور وہ حالت حیض میں بھی تھی تو اُن الفاظ سے بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، میاں بیوی کے درمیان نکاح ختم ہوچکا ہے، بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، اب نہ تو رجوع کرنا جائز ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح کر کے ساتھ رہنا جائز ہے،  بیوی عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 384):
"في المحيط لو قال بالعربية أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا"
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 230):
"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية"
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 233):
"وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث"
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 232)
(والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين) في طهر واحد (لا رجعة فيه، أو واحدة في طهر وطئت فيه، أو) واحدة في (حيض موطوءة) لو قال والبدعي ما خالفهما لكان أوجز وأفيد (وتجب رجعتها) على الأصح (فيه) أي في الحيض رفعا للمعصية (فإذا طهرت) طلقها (إن شاء) أو أمسكها
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 246)
[مطلب في الطلاق بالكتابة]
 (قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة (الی قولہ) وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ۔۔۔ الخ

احمد الر حمٰن

دار الافتاء، جامعۃ الرشید کراچی

23/شعبان/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احمد الرحمن بن محمد مستمر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے