021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لڑکیوں کے لیے مخلوط نظامِ تعلیم میں ایم بی بی ایس کرنے کا حکم
81871جائز و ناجائزامور کا بیانپردے کے احکام

سوال

مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں کہ بارھویں تک لڑکیوں کے لیے علیحدہ کالجز ہوتے ہیں،بارھویں تک ایک لڑکی اپنی تعلیم لڑکیوں کے کالج میں باپردہ حاصل کرسکتی ہے،اب چونکہ بارھویں کے بعد خصوصا میڈیکل کالجز میں لڑکیوں کے لیے علیحدہ کوئی کالج میسر نہیں ہے تو کیا اس صورت میں شریعت لڑکیوں  کے لیے مخلوط تعلیمی نظام میں پڑھنے کی اجازت دیتی ہے؟

اگر شریعت لڑٕکیوں کے لیے مخلوط تعلیمی نظام میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہےتو اس کی کیا صورتیں ہوسکتی ہیں؟برائے مہربانی راہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ عورتوں کے لیے عصری تعلیم حاصل کرنا فی نفسہ جائز اور مباح ہے،اگر شرعی امور کا لحاظ رکھا جائے تو بعض ضروری علوم  جیسے میڈیکل سے متعلق تعلیم کا حاصل کرنا نا صرف جائز بلکہ مستحسن بھی ہے۔لہذا اگر کوئی ایسا ادارہ موجود ہو جس میں مردوں سے اختلاط نہ ہو تو ایسی صورت میں لڑکیوں کے لیے مخلوط تعلیمی اداروں میں پڑھنا جائز نہیں ہوگا،لیکن اگر تعلیمی دورانیہ میں ایسا کوئی شعبہ ہو کہ جس سے متعلق اُس علاقہ میں لڑکیوں کے لیے علیحدہ کوئی یونیورسٹی وغیرہ نہ ہو اور وہ تعلیم بھی ناگزیر ہو جیسے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنا،تاکہ خواتین کے امراض کی تشخیص خواتین ڈاکٹرز ہی کرسکیں،تو ایسی مجبوری کی صورت میں مخلوط نظام میں مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا جائز ہوگا:

1-خوشبو لگا کر اور مزین ہوکر نہ جائیں۔

2-مکمل پاپردہ ہوکر جائیں۔

-3 کسی بھی غیر محرم خواہ ٹیچر ہوں یا طالب علم کے ساتھ اکیلے کمرے میں نہ رکیں اور نہ ہی اکیلے ملاقات کریں۔

-4 سبق کی دہرائی لڑکوں کے ساتھ کرنےکے بجائے صرف لڑکیوں کے ساتھ کریں۔

-5 میڈیکل کی تعلیم میں اگر کبھی لڑکوں کے ساتھ عملی مشق  )پریکٹکل( کی ضرورت پیش آجائے تو اس میں بھی حجاب اور ستر کے شرعی مسائل کی مکمل پاس داری کی جائے۔

-6کلاس روم میں لڑکیوں کے ساتھ بیٹھیں،لڑکوں کے ساتھ بیٹھنا جائز نہیں۔

-7 شدید مجبوری کے تحت کبھی کسی غیر محرم خواہ ٹیچر ہوں یا طالبِ علم  سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائےتو  بوقتِ ضرورت بقدرِ ضرورت بات کریں،بلاضرورت  بات کرنا یا ضرورت سے زیادہ بات کرنا جائز نہیں، ہنسی مزاح کرنے ،اس کا جواب دینے اور ہاتھ ملانے  کی کوئی گنجائش نہیں، سخت گناہ ہے۔

مندجہ بالا امور کی اگر رعایت کی جائے تو لڑکیوں کے لیے مخلوط نظامِ تعلیم میں پڑھنے کی گنجائش ہے،بصورت دیگر جائز نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
(تفسير ابن كثير :ج: 6 / ص: 44)
{ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ }
"فقوله تعالى: { وقل للمؤمنات يغضضن من أبصارهن } أي: عما حرم الله عليهن من النظر إلى غير أزواجهن. ولهذا ذهب [كثير من العلماء] إلى أنه لا يجوز للمرأة أن تنظر إلى الأجانب بشهوة، ولا بغير شهوة أصلا. واحتج كثير منهم بما رواه أبو داود والترمذي، من حديث الزهري، عن نبهان -مولى أم سلمة -أنه حدثه: أن أم سلمة حدثته: أنها كانت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وميمونة، قالت: فبينما نحن عنده أقبل ابن أم مكتوم، فدخل عليه، وذلك بعدما أمرنا بالحجاب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "احتجبا منه" فقلت: يا رسول الله، أليس هو أعمى لا يبصرنا ولا يعرفنا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أو عمياوان  أنتما؟ ألستما تبصرانه"  .
ثم قال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح.
وذهب آخرون من العلماء إلى جواز نظرهن إلى الأجانب بغير شهوة، كما ثبت في الصحيح: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جعل ينظر إلى الحبشة وهم يلعبون بحرابهم يوم العيد في المسجد، وعائشة أم المؤمنين تنظر إليهم من ورائه، وهو يسترها منهم حتى ملت، ورجعت."
(كتاب المبسوط للشيباني :ج: 1 / ص: 464)
"ولا بأس بأن تنظر المرأة التي لا نكاح بينها وبين الرجل منه إلى جميع جسده ،ووجهه، ورأسه إلا ما  بين سرته إلى ركبته، فإن ذلك عورة ،ولا ينبغي لها أن تنظر إليه...ولا ينبغي لها أن تمس منه قليلا ولا كثيرا إذا كانت شابة يشتهي مثلها ،أو كان شابا يجامع مثله."
(رد المحتار :ج: 26 ،ص: 392)
"وفي الأشباه : الخلوة بالأجنبية حرام إلا لملازمة مديونة هربت ودخلت خربة، أو كانت عجوزا شوهاء."
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق :ج: 3 / ص: 72)
"ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها ؛ لأن ذلك ليس بصحيح،فإنا نجيز الكلام مع النساء الأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك ،ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ،ولا تمطيطها،ولا تليينها، وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن،وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة."
(رد المحتار :ج: 1 ، ص: 101)
"قال في تبيين المحارم : وأما فرض الكفاية من العلم ، فهو كل علم لا يستغنى عنه في قوام أمور الدنيا كالطب، والحساب ،والنحو، واللغة، والكلام."

 ابرار احمد صدیقی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

۴/ربیع الثانی/١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ابراراحمد بن بہاراحمد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے