021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کا اپنے بیٹے کی جائداد میں وصیت جاری کرنا
80532جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

بخت جمال خان کے آٹھ بیٹے ہیں ، ان میں سے آٹھواں بیٹا ریاض خان ہے۔ ریاض خان گاؤں میں زمیندار تھا، 120 ایکڑ  زمین میں محنت مزدوری کرتا تھا۔ اس کے باوجود بھائیوں کی چغلیوں کی وجہ سے والد نے ریاض خان کو گھر سے نکال دیا۔ اس کے بعد وہ کراچی آیا اور محنت مزدوری کرکے پیسے جمع کیے، اور نیو کراچی اشرف گوٹھ میں 120 گز کے پانچ (5) پلاٹ خریدے جس میں  باؤنڈری، دو کمرے اور ایک پانی کی ٹینکی بھی بنائی۔ کچھ عرصی بعد  ریاض خان کے والد اور 7 بھائی بھی کراچی آگئے، ریاض خان نمے نے انہیں اپنے اس گھر میں عارضی طور پر رہائش دے دی۔ اب ریاض خان کے بھائی اپنے والد کو ورغلا رہے ہیں کہ وہ یہ وصیت جاری کر دے کہ یہ پانچ پلاٹ میرے سات بیٹوں کے ہیں، اس میں ریاض خان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ راہنمائی فرمائیں کہ کیا بخت جمال اس پلاٹ کے بارے میں وصیت جاری کر سکتا ہے؟ جبکہ یہ پلاٹ ریاض خان کی محنت مزدوری سے کمائے ہوئے پیسوں کا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یاد رہے کہ والد مطلقاً اپنی اولاد کے مال کا مالک نہیں ہے، بلکہ یہ صرف احتیاج اور ضرورت کے ساتھ مقید ہے، اس لیے والد بلا ضرورت و احتیاج اپنے بیٹے  کا مال اس کی اجازت کے بغیر  نہ استعمال کرسکتا ہے اور نہ کسی کو بطورِ ہدیہ دے سکتا ہے اور نہ  اس کے مال میں وصیت کر سکتا ہے،

صورتِ مسئولہ میں بخت جمال اپنے بیٹے ریاض خان کے پلاٹ کے بارے میں شرعاً  کسی کے لیے وصیت نہیں کر سکتا۔

حوالہ جات
التيسير بشرح الجامع الصغير(2/ 210):
"عَن أبي هُرَيْرَة ... كل أحد أَحَق بِمَالِه من وَالِده وَولده وَالنَّاس أَجْمَعِينَ) لَايناقضه "أَنْت وَمَالك لأَبِيك"؛ لِأَن مَعْنَاهُ إِذا احْتَاجَ لمَاله أَخذه، لَا أَنه يُبَاح لَهُ مَاله مُطلقًا"
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع(4/30):
وروي عن جابر بن عبد الله - رضي الله عنه - أن «رجلًا جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه أبوه، فقال: يا رسول الله إن لي مالًا، وإن لي أبًا وله مال، وإن أبي يريد أن يأخذ مالي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أنت ومالك لأبيك»، أضاف مال الابن إلى الأب؛ فاللام للتمليك، وظاهره يقتضي أن يكون للأب في مال ابنه حقيقة الملك، فإن لم تثبت الحقيقة فلاأقل من أن يثبت له حق التمليك عند الحاجة۔
وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «إن أطيب ما يأكل الرجل من كسبه، وإن ولده من كسبه؛ فكلوا من كسب أولادكم إذا احتجتم إليه بالمعروف»، والحديث حجة بأوله وآخره، أما بآخره فظاهر؛ لأنه صلى الله عليه وسلم أطلق للأب الأكل من كسب ولده إذا احتاج إليه مطلقًا عن شرط الإذن والعوض؛ فوجب القول به۔ وأما بأوله فلأن معنى قوله: "وإن ولده من كسبه" أي: كسب ولده من كسبه؛ لأنه جعل كسب الرجل أطيب المأكول، والمأكول كسبه لا نفسه، وإذا كان كسب ولده كسبه كانت نفقته فيه؛ لأن نفقة الإنسان في كسبه؛ ولأن ولده لما كان من كسبه؛ كان كسب ولده ككسبه، وكسب كسب الإنسان كسبه، ككسب عبده المأذون فكانت نفقته فيه

احمد الر حمٰن

دار الافتاء، جامعۃ الرشید کراچی

25/ذوالقعدہ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احمد الرحمن بن محمد مستمر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے