021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
یوٹیوب کی ویڈیوز لائک کرنے کے ذریعہ پیسہ کمانے کا حکم
81935اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

یوٹیوب چینلز کی ویب سائٹ کی ویڈیوز لائک کرنے کاکام کیسے ہےجائز ہے یانہیں؟

اس سے پیسے ملتے ہیں 15000 کا پیکج لےکر 16000 ماہانہ ایرن کرتے ہیں ، ویڈیوز میں کوئی بے حیائی نہیں ہوتی۔

youtube channels ki videos like krny ka kaam hy.is se paisy milty hyn.15000 ka package ly kr 16000 monthly earn krty hyn.videos me koi behayai ni hy .

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکور کام میں مندرجہ ذیل مفاسد پائے جاتے ہیں:

1۔ ویڈیوز، تصاویر وغیرہ لائک کا کام اجارہ (ملازمت) کا فعل ہے جس میں دیکھنےوالے کو ویڈیو یا تصویر لائک کی اجرت دی جاتی ہے۔ یہ کوئی ایسی منفعت نہیں جو اصلاً مقصود ہو اور شرعاً اس کی اجرت لی جا سکے۔ اس کے برعکس یہ کام جعل سازی کے لیے اکثر استعمال ہوتا ہے، مثلاً فیس بک اور یوٹیوب چینل پر غلط طریقے سے ویورز لا کر یو ٹیوب، گوگل ایڈسینس اور اشتہار دینے والی کمپنیوں کو بھی دھوکہ دیا جاتا ہے۔ لہذا شرعاً یہ کام کرنا اور اس کی اجرت لینا درست نہیں ہے۔

2۔ یہ ویڈیوز، تصاویر وغیرہ لائک کے کام کے لیے انویسٹمنٹ کی جاتی ہے جو حقیقتاً اجارے (ملازمت) کے حق کو خریدنا ہے۔ یہ حق مجرد کی بیع ہے یعنی بلا کسی عوض ادائیگی کی ایک صورت ہے اور اکل بالباطل اور رشوت کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ جائز نہیں  ہے اور اس لیے اس سے اجتناب لازم ہے۔

مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں ان ویڈیوز اور تصاویر کے لیے انویسٹمنٹ کرنا اور انہیں دیکھنا اور لائک کرنا درست نہیں ہے  اوراس کی اجرت بھی شرعاً درست نہیں ہے۔(ماخوذ از فتویٰ نمبر 81583/62)

حوالہ جات
مجلة مجمع الفقه الإسلامي، مقالة الشيخ محمد تقي العثماني، 5/1931))
ومقتضى هذين التعريفين أن المال مقصور على الأعيان المادية، فلا يشمل المنافع والحقوق المجردة، ولذلك صرح الفقهاء الحنفية بعدم جواز بيع المنافع والحقوق المجردة، وقد صرحوا بأن بيع حق التعلي لا يجوز.
 (الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 6/4، ط: دار الفكر)
قال الحصكفي ؒ: "وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية."
علق عليه ابن عابدين ؒ: "(قوله مقصود من العين) أي في الشرع ونظر العقلاء، بخلاف ما سيذكره فإنه وإن كان مقصودا للمستأجر لكنه لا نفع فيه وليس من المقاصد الشرعية، وشمل ما يقصد ولو لغيره لما سيأتي عن البحر من جواز استئجار الأرض مقيلا ومراحا، فإن مقصوده الاستئجار للزراعة مثلا، ويذكر ذلك حيلة للزومها إذا لم يمكن زرعها تأمل."

ولی الحسنین

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 11  جمادیٰ الاولیٰ1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ولی الحسنین بن سمیع الحسنین

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے