021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زبردستی تحریری طلاق کاحکم
81947طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میں زید (فرضی نام)ولد ........ حامل شناختی کارڈ نمبر .................. سنی العقیدہ ہوں، پیشہ کے اعتبار سے سول انجینئر اور ذاتی کاروبار کا حامل مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھنے والاشخص ہوں، مجھ سمیت ہمارے گھر کے تمام افراد پابندِ صوم وصلوۃ ہیں اور گھر کی تمام خواتین شرعی پردہ کرتی ہیں اور میں اپنے علاقے میں سوشل ورک کے حوالے سے اچھی شہرت رکھتا ہوں،میرے عرصہ 15 سال سے جاننے والے محترم عبدالکریم سنی العقیدہ اور درس و تدریس سے وابستہ مذہبی شخصیت کے حامل شخص ہیں اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور اچھی شہرت کے حامل ہیں،ان کی فیملی کی نیک نامی اور اچھی شہرت کے باعث میں اپنی دوسری شادی ان کی سب سےبڑی بیٹی مسماۃ خالدہ ضیاءجوکہ شرعی پردہ کرتی ہیں)سے کرنے کی شدید خواہش رکھتا تھا، جس کیلئے میں نے لڑکی کے والدین سے با قاعدہ رشتہ ما نگا، ہم دونوں کی عمروں کے فرق اور ہمارے شادی شدہ ہونے کے باعث کچھ تردو کے بعد لڑ کی کے والد نے کچھ شرائط کے ساتھ رشتہ قبول کرلیا  اور بات پکی کر دی اور با قاعدہ نکاح کی تاریخ تقریب کا مقام، اورلڑ کی کی رہائش کیلئے علیحدہ فلیٹ اورلڑکی کے استعمال کیلئے گاڑی مہیا کرنےکی شرط کے ساتھ دیگر امور طے کیے اور اس خوشی کے موقع پر خود سے فرمائش کرکے ہم سے مٹھائی منگوا کر اپنے گھر بھی لے گئے،مگر نکاح کے طے شدہ دن سے دوروز پہلے یہ کہہ کراپنے وعدہ سے منکر ہو گئے کہ میری گھر والی کو آپ کی عمر بڑی ہونے پر اعتراض ہےجس کے چند روز بعد لڑکی کے والد سے میری جانب سے دوبارہ بات کرنے پرلڑکی کے والدفلیٹ مع گاڑی کی جگہ، بنگلہ مع گاڑی کی بات طےہونے کا کہنے لگے جس کی ہم نے صاف الفاظ میں تردید کرتے ہوئے فلیٹ مع گاڑی کے اپنے دعدے کو دہرایا جس پر انہوں نے سوچ کر جواب دینے کا کہا مگر چند روز بعد پھر اپنی بات سے پھر گئےجبکہ لڑکی کی بھی دلی خواہش تھی کے طے ہونے والے رشتہ کے تحت نکاح کی تقریب کو طے شدہ شیڈول کے مطابق سرانجام دیاجائے جس کیلئے لڑکی نے گھر والوں کومنانے کی بے انتہا کوشش بھی کی اورکہا کہ جب مجھے عمر زیادہ ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے تو پھر میرا شرعی حق ہےکہ جہاں میں چاہتی ہوں آپ لوگ میرا نکاح وہاں کر دینے کو کیوں نہیں مان رہےہیں اور میرا شرعی حق کیوں سلب کرہے ہیں جو کہ کسی طور بھی مجھے قبول نہیں ہے  اور مزید یہ کہ  مجھے کچی آبادیوں میں آبادکم تعلیم یافتہ گھرانوں میں شادی ہرگز ہرگز نہیں کرنی ہےمگر لڑکی کے گھر والوں نے اسکی ایک بات نہ سنی اورلڑ کی کو اس کی مرضی کے خلاف الٹے سیدھے رشتے بتاتے رہے جس کیلئے وہ قطعی طور پر راضی نہ تھی اور ہر دفعہ انکار کرتی رہی اور اپنی پہلے والی رائے کا مسلسل اعادہ کرتی رہیں اور اپنی خواہش اور والدین کی رضامندی کے تحت ہم سے شرعی نکاح کرنے کیلئے لڑکی نے پیار محبت سے ، رو دھو کے، ضد کر کے ہرطرح کوشش کی اور آخری حد تک جا کر اپنے والدین کو منانے کی بھر پور کوشش کی کہ اگر میں شادی کروں گی تو صرف اور صرف زید (فرضی نام)سے ہی کروں گی مگر والدین کبھی راضی ہو جاتے اور کبھی کچھ نہ کچھ بہانہ بنا کرمنع کر دیتے اور اس سارے معاملے میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لڑکی کے گھر والوں کولڑکی نے بارہا صاف صاف الفاظ میں بتا دیا تھا کہ اگر آپ لوگ میری شادی زید (فرضی نام)سے نہیں کریں گےتو میں آپ لوگوں کو آخری حد تک جاکرمنانے کی کوشش کر چکی ہوں اس کے بعد بھی اگر آپ لوگوں نے میری شادی میری مرضی سے زید (فرضی نام)سے نہ کی تو میں خود سے نکاح کرنے کی طرف چلی جاؤں گی پھر آپ لوگ مجھے موردالزام نہ ٹہرایئے گا۔مختصر یہ کے بارہا والدین کو یہ بتانے کے باوجود والدین کے غیر منطقی اعتراضات کے باعث اور راضی نہ ہونےکے باعث لڑکی نے خود سےنکاح کرنے کا فیصلہ کرلیا جس پر ہم نے پھر بھی لڑکی کے والدین کو منانے کی بارہا کوشش کی مگر وہ پرانی اور غیرمنطقی سوچ کے باعث راضی نہ ہوئے اور بالآخر ہم دونوں نے 2023-04-03 کو با قاعدہ نکاح خواں کے سامنے ذاتی حیثیت میں حاضر ہوکر دو گواہوں کی موجودگی میں-/500,000 .Rs حق مہرکےعوض ایجاب وقبول کرتے ہوئے نکاح کرلیا، نکاح کر لینے کے باوجود ہم دونوں لگا تار کوشش کرتے رہے کہ والدین خود سے بخوشی و برضا شادی کرنے کیلئے تیار ہو جائیں تا کہ ہمارےہونے والے نکاح کے پتہ لگنے پر ان کو پہنچنے والے صدمہ سے بچایا جاسکے مگر وہ لایعنی اعتراضات کے ساتھ رشتہ دینے سے ہمیشہ اعرض ہی کرتے رہےجس پر بالآخر ہم نے 2023-8-24 کے روز صبح کے وقت خودلڑ کی کے والدِمحترم کو نکاح کے ہوجانے کی خبر دی تا کہ ان کے دستِ شفقت کے تحت با قاعدہ  شادی کی تقریب منعقد کرنے کی طرف آگے بڑھا جا سکے جس پرلڑ کی کے والد نے ان کے علم میں لائے بغیر نکاح کرنےپر کسی حد تک ناراضگی کا اظہار کیا اورغصہ کی حالت میں اپنے گھر چلے گئے، اسی روز دو پہر سے کچھ پہلے لڑکی کے والد نے ہمیں گھر کے نزدیک ایک پارک میں بلایا اور فلیٹ اور گاڑی کی اریجنل فائلز ان کےحوالے کرنے کا کہا مگر ہمارے سمجھانے پر اور معاملات صبرتحمل اور مشورہ سے طے کرنے کا کہنے پر انہوں نے ہمارا گلہ دبا کرہمیں ہلاک کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں اور ساتھ ہی ہمیں مغلظات سے بھی نوازتے رہے اور اسی غصہ کی حالت میں چلے گئے، اسی روز بعد نماز ظہرلڑکی کے والد سے ہماری بات ہوئی جس میں ہم نے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ ہمیں ایک عددفلیٹ اور گاڑی لڑکی کواستعمال کیلئے دینے پر اعتراض نہیں ہے مگر ہمارا موقف یہ تھا کہ یہ چیزیں لڑکی کو اس طرح سے ملنی چاہیں کہ لڑکی کو ہماری حیات کے بعدوراثت میں سے ملنے والے حصہ میں شمار ہوں ، اور اس مقصد کیلئے لڑ کی اور اس کے والدین کے اطمینان کی خاطر ہم نے تجویز دی کہ ہم لوگ باہم کوئی تحریری معاہدہ کر سکتے ہیں تا کہ پہلی بیوی بچوں کے وراثتی حقوق غصب نہ ہوں اور انصاف کا تقاضہ پورا کیا جا سکے جس کیلئے ہم نے جائیداد سے متعلق کسی ٹیکنیکل اور ماہر آدمی سے رائے لے کر اور باہم مل بیٹھ کر معاملے کو طے کرنے کا مشورہ دیا مگرلڑکی کے والد فلیٹ اور گاڑی کی فائل فورا ان کے حوالے کرنے پر بضد تھے اور وہ کوئی دوسری بات سننے اور سمجھنے پر کسی طور پر تیارہی نہ تھے اور جب ہم نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی تو بات سمجھنے کی بجائے انہوں نے مشتعل ہوکرخار دارڈ نڈوں سے مجھ پر حملہ کردیا جس سے میں بری طرح زخمی ہو گیا اور میری گردن ، کندھےاور کمر میں شدید زخم آئے اور میری ایک آنکھ کی فوری طور پرنظر بھی چلی گئی اور میں بری طرح لہولہان ہو گیا اورمیں لڑکی کے والد سے لڑکی کے بھائی کی موجودگی میں بھاگ کر بمشکل اپنی جان بچا پایا، اسی روز رات میں مجھے لڑکی کے چچا کی جانب سے دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں اور مجھے فوری طور پر ان کی رہائش گاہ واقع ملیر پہنچنے کیلئے دھمکی آمیز لہجہ میں کہا گیا اور نہ پہنچنے پر برے نتائج کی دھمکیاں دی گئیں ،مگر ہم نے اپنے شدید زخمی ہونے اور چلنے پھرنے سے معذور ہونے اور نظرنہ آنے کے باعث ان کے گھر جانے سے معذرت کی تو لڑکی کےچاچا کا موقف تھا کہ آپ زخمی ہیں اور چلنے پھرنے سے معذور ہیں تو کیا ہوا آپ کا حشر تو اس سے بھی برا ہونا چاہیےتھا مگر ہماری جانب سے باربارمعذرت کرنے پر انہوں نے لڑکی کے گھر کےنزدیک واقع مسجد میں فوری طور پر پہنچنے کا حکم صادر کیا اور جب وہ لوگ اسی روز یعنی وقوعہ والی رات کو آئے تو لڑکی کے چچا کے ساتھ 2 دیگر افراد بھی تھے،گفتگو کے دوران لڑکی والے پانچ افراد تھے اور ہم اکیلے تھے اور گرم سرد گفتگو چلتی رہی اوراسی گرمی سردی میں ایک ایسا مقام آیا جہاں جا کر لڑ کی کے چچا اور ساتھ آنے والے افراد نے کاغذ اور پین منگوا کر ہماری رائےمرضی اور منشاء کے خلاف زخمی حالت میں اور شدید ذہنی دباؤ اور ہماری جان کو لاحق خطرات کے عالم میں ہم سے زبردستی طلاق نامہ لکھوالیا۔جس کا متن ہو بہو درج ذیل ہے۔

طلاق نامہ

میں زید ولد ...... ساکن----شناختی کارڈ نمبر........... فلانہ  دختر ..... ساکن------لڑکی اور اسکے والدین کی خواہش پر بغیر کسی جبر و اکراہ تین عدد طلاق دیتا ہوں بلکہ تین عدد طلاقیں دے دی ہیں۔

زید (فرضی نام) ولد .......

1) دستخط گواہ۔۔۔۔۔

2) دستخط گواہ۔۔۔۔۔

3) دستخط گواہ۔۔۔۔۔

اس وقوعہ کے اگلے روز جب لڑکی کے گھر والوں کے جذبات کچھ ٹھنڈے ہوئے اور غصہ کچھ کم ہوا تو وہ لوگ ہماری بات سمجھنے کے قابل ہوئے تووہ لوگ اپنے کیے پر افسوس کا اظہار کرنے لگے اورلڑ کی کے والد ہمارے ساتھ ملکر روتے ہوئے کہتے جاتے تھے کہ زمانہ خراب ہے میں آپ سے ڈر گیا تھا کہ شاید آپ عام لوگوں کی طرح دھوکہ باز اور فراڈیئے آدمی تو نہیں ہیں مگر اب مجھے احساس ہورہا ہے کہ ہم سے بہت بڑی بھول ہوگئی اسلئے آپ سے مؤدبانہ التماس ہے کہ درج بالا حالات و واقعات کی روشنی میں شرعی اعتبار سے نکاح کے قائم رہنے یا طلاق واقع ہوجانے کا فتوی جاری کیا جائے تا کہ اس فتوی کی روشنی میں معاملات کو سلجھاتے ہوئے زندگی کو افہام تفہیم سے آگے بڑھایا جاسکے۔

نوٹ:

(1) مستقبل میں ممکنہ پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے ہم نے حفظ ماتقدم کے طور پر ممکنہ عدت کے پہلے ہفتے اور پھر دوبارہ  ممکنہ عدت کے45 ویں دن لڑ کی سے اس کے گھر کے دروازہ پر بلوا کر بنفس نفیس رجوع کرنے کے الفاظ /جملے ادا کرتے ہوئے لڑکی سے رجوع کرلیا تھا۔

(2) یادر ہے کہ طلاق نامہ لکھواتے وقت خالدہ ضیاء طلاق لینے میں قطعی طور پر راضی نہ تھی اور اس طلاق نامہ کے لینے میں اسکی مرضی ومنشا شامل نہ تھی اور یہ لڑکی کے رشتہ داروں کی جانب سے ہم سے زور وزبردستی لیا گیا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 مفتی غیب نہیں جانتا، وہ سوال کے مطابق جواب دیتا ہے، سوال میں سچ اورجھوٹ  کی ذمہ داری سائل پر ہوتی ہے، غلط بیانی کرکے اپنے مطلب کا فتویٰ حاصل کرنے سے حرام ، حلال نہیں ہوتا اور نہ حلال ، حرام ہوتا ہے بلکہ حرام بدستور حرام اور حلال بدستور حلال ہی رہتا ہے، اگر کوئی غلط بیانی کے ذریعہ فتویٰ حاصل کرے گا تو اس کا وبال اسی پر ہوگا۔ 

پہلے یہ سمجھیں کہ زبانی معلوم ہوا ہے کہ آپ کی عمرکافی زیادہ ہے اورآپ پہلے سے صاحب اولاد ہیں تو عمرکے اس حصےمیں  بچی کے والد کے علم میں لائے بغیر اس کی کم عمر بیٹی پر نظررکھنا،،چھپ کراس سے مراسم رکھنا،اس کو شادی پر امادہ کرنا پھراورمعاملات اس حد تک بڑھا دیناکہ انکارکی صورت میں پھر صبرکی گنجائش نہ  رہے،یہ انتہائی قبیح عمل ہے،شادی شدہ ہونے اورعمرکے اس تفاوت کے باوجود لڑکی کا شادی کےلیے تیارہونابالعموم  کسی لالچ اورسبرباغ دکھانے کی وجہ سے ہوتاہے،تجربہ یہ ہے کہ عموماً ایسی شادی دیرپا نہیں ہوتی اورشریف فیملیوں میں ایسا برداشت بھی نہیں کیاجاتا،اس طرح کرنا شرعاً، عرفاً  اور اخلاقاً نہایت نامناسب عمل سمجھاجاتا ہے۔

تاہم والدین کو بھی چاہیے کہ اولاد کی رائے کا احترام کریں اور ایسا رویہ ہرگز  اختیار نہ کریں کہ جس کی وجہ سے اولاد کوئی ایسا قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائیں کہ  جو سب کے لیے رسوائی کا باعث ہو۔

 سائل کو چاہیے تھاکہ  وہ خفیہ طور پر نکاح نہ کرتا، بلکہ لڑکی کے خاندان  کو راضی کرنے کی برابرکوشش کرتا اورجب تک وہ شادی کرنےپر  امادہ نہ ہوتاشادی نہ کرتا،تاہم جب ایسا ہو ہی گیا ہے جو والدین نہیں چاہتے تھے تو والدین بھی اب چاہیے کہ کو بچی کے رائے کا احترام کریں اوراتنازادہ سختی نہ کریں۔

   بہرحال اگرنکاحِ مذکور دو مسلمان گواہوں کی موجودگی میں باقاعدہ ایجاب وقبول کرکے ہوا ہے اورآپ لڑکی کے کفؤہیں  (یعنی برابری رکھنے والے والے خاندان سےتعلق رکھتےہیں)تو پھرمذکورہ نکاح ہوگیا ہے ،اگرچہ ایساچھپ چھپاکرنکاح کرناشرعاً برا ہے ۔لہذا اس کے بعد لڑکی والوں کا طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں، ہاں مذکورہ نکاح جو ولی کی اجازت کے بغیر ہواہےاگرغیر کفو  میں ہوا ہوتو پھر راجح قول کے مطابق یہ نکاح  منعقدہی  نہیں ہوا۔

                  اس تمہید کے بعداب آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگرمذکورہ نکاح کفؤ  میں ہوا تھا  اورذکر کردہ صورتِ حال واقعہ کے مطابق اور درست ہے کہ انہوں نےآپ سے زبردستی طلاق لکھوائی اورآپ نےفی الواقع  ذہنی دباؤ اورجان کولاحق خطرات  کے پیش نظر اس پر دستخط کیےہیں، اورنہ اس وقت اور  نہ  ہی بعد میں آپ نے  زبان سے طلاق کے الفاظ کہےہیں تو پھراس تحریرسے آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، آپ دونوں کا نکاح بدستور قائم ہے۔ 

حوالہ جات
’’عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم:  أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ ...‘‘ الحديث.(سنن الترمذي، باب ما جاء في إعلان النكاح)
وفی سنن ابن ماجة :
ايما امراة نکحت نفسها بغير اذن وليها فنکاحها باطل فنکاحها باطل فنکاحها باطل.
قال اللہ تعالی:
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْ ھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَجَھُن [البقرة: 232]
وقال رسول اللہ ﷺ
لا تُنْکَحُ الْأَیِّمُ حَتَّی تُسْتَاْمَرَ وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ قَالُوا یَارَسُولَ اللَّہِ وَکَیْفَ اِذْنُھَا قَالَ أَنْ تُسْکُتَ( صحيح البخاري کتاب النکاح  7/ 17ط الشاملۃ)
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 55)
(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا.
 وفی الشامیة:
" طلب أولياؤها طلاقها، فقال الزوج لأبيها: ما تريد مني؟ افعل ما تريد! وخرج فطلقها أبوها لم تطلق إن
لم يرد الزوج التفويض؛ فالقول له فيه، خلاصة.(قوله: ما تريد مني) استفهام، وقوله: افعل ما تريد أمر (قوله:لم تطلق إلخ) أي؛ لأنه وإن كان في مذاكرة الطلاق لكنه لا يتعين تفويضاً؛ لاحتمال التهكم أي افعل إن قدرت، تأمل" . (3/330، باب الامر بالید، کتاب الطلاق، ط: سعید)
وفیہ ایضاً:
"وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه" .
وفی المحيط البرهاني:
وإن لم تقم عليه بينة بالكتاب ولم يقر أنه كتابه ولكنه وصف الأمر على وجهه، فإنه لا يلزمه الطلاق في القضاء ولا فيما بينه وبين الله تعالى، وكذلك كل كتاب لا يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع به الطلاق إذا لم يقر أنه كتابه.(المحيط البرهاني،باب الخلع،ج3ص429)
 ( فإن اختلفا في وجود الشرط ) أي ثبوته ليعم العدمي ( فالقول له مع اليمين ) لإنكاره الطلاق۔(الدر المختار،ج3ص356)
بدائع الصنائع، دارالكتب العلمية (2/ 317)
وأما الثاني فالنكاح الذي الكفاءة فيه شرط لزومه هو إنكاح المرأة نفسها من غير رضا الأولياء لا يلزم حتى لو زوجت نفسها من غير كفء من غير رضا الأولياء لا يلزم. وللأولياء حق الاعتراض؛ لأن في الكفاءة حقا للأولياء؛ لأنهم ينتفعون بذلك ألا ترى أنهم يتفاخرون بعلو نسب الختن، ويتعيرون بدناءة نسبه، فيتضررون بذلك، فكان لهم أن يدفعوا الضرر عن أنفسهم بالاعتراض.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (3/ 264)
وقيدنا بكونه على النطق لأنه لو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية، وفي البزازية أكره على طلاقها فكتب فلانة بنت فلان طالق لم يقع .
وفی مسندالإمام أحمدرحمہ اللہ تعالی :
قال النبي الكريم صلى الله عليه وآله وسلمليس منا من خبب امرأة على زوجها أو عبداً على سيدهرواه الإمام أحمد وأبو داود وصححه السيوطي.

 سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

  10/11/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے