021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چھوٹے بھائی کا والد کے کاروبار میں وراثت کا دعویٰ
81829میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین درجِ ذیل مسئلہ کےبارے میں کہ میرا نام ریحانہ کوثر ہے، میں رحیم یار خان، پنجاب، پاکستان سے ہوں۔ میرا سوال کاروبار کی وراثت کے حوالے سے ہے، میرا بھائی 1.محمد عباس بہت اچھا اور دین کی سمجھ رکھنے والا ہے۔ وہ کاروباری لین دین میں علماء کرام سے رہنمائی بھی لیتا ہے۔ میرے بھائی 1.محمد عباس نے والد صاحب کے مٹھائی کے مقروض کاروبار پر بہت محنت کر کے تمام قرضہ جو کہ تقریبالاکھ تھا ،والد کی زندگی میں ہی والد کے اسی کاروبار کی آمدن سے اتار دیا اور والد صاحب کی وفات کے بعد تقریبا 16کروڑ کی جائیداد اسی کاروبار سے بنائی۔ میرا بھائی 2.محمد الیاس ایک جھگڑالو، چالاک اور احسان فراموش قسم کا انسان ہے، شاید اسے بڑے بھائی 1.محمد عباس سے حسد ہے۔2.محمد الیاس دعویٰ کرتا ہے کہ یہ کاروبار ہم سب کا ہے اور میرے پاس اس حوالے سے فتاویٰ بھی موجود ہیں، کیونکہ یہ کاروبار والد صاحب نے 1970 میں اپنے سرمائے سے شروع کیا تھا اور ابو نے ہم سب بہن بھائیوں کو بھی اسی کاروبار سے پالا اور ہمارے مکان بنائے ۔اگر 1993 میں ابو پر کاروباری قرضہ ہو ہی گیا تھا تو کاروبار میں ایسا ہوتا رہتا ہے تو میں 2.محمد الیاس نے بھائی 1.محمد عباس کو ابو کی سپورٹ کے لیے دکان پر بٹھایا اور میں خود 2.محمد الیاس بھی ابو کے اس کاروبار کی سپورٹ کرتا رہا ،کیونکہ ابو نے بھی تو ہمیں پال کر جوان کیا اور ہماری سپورٹ بھی کی اور وفات تک اپنے کاروبار کی سربراہی بھی کرتے رہے اب جبکہ ابو 2004 میں فوت ہو گئے تھے تو ابو کے اس کاروبار کی بچت سےابو کی وفات تک اور ابو کی وفات کے بعد بھی ابو کے اسی کاروبار سے بننے والی جائیداد سے 1.بھائی عباس اپنا شرعی حصہ اور منیجمنٹ کی تنخواہ نکال کر اس کاروبار سمیت باقی سب جائیداد کو ابو کے سب ورثہ  پر تقسیم کرے۔

جبکہ جس وقت ابو فوت ہوئے اس کاروبار میں استعمال ہونے والی 2 عدد دکانیں کرائے کی تھیں  ۔اس وقت 2023 میں 4 عدد دکانیں کاروبار کی ملکیت ہیں جو کہ 1.بھائی عباس نے مٹھائی کے اسی کاروبار سے خرید کر اپنے نام کی ہیں اور میں(ریحانہ کوثر) اور میرا بھائی 3.محمد شعیب مطمٔن ہیں کہ یہ کاروبار ہمارے بھائی 1.محمد عباس کا ہے، کیونکہ 2.محمد الیاس ایک دفعہ بھائی 1.محمد عباس کو ایک معتبر مقامی عالم دین کے پاس لے کر گیا تھا ۔انہوں نے کہا کہ دکانیں کرایہ کی ہیں اس لیےجو کاروبار کر رہا ہے بچت بھی اسی کی ہوگی یعنی 1.محمد عباس کی اور کیونکہ دکانیں کرایہ کی ہیں لہٰذا اس کاروبار کی کوئی وراثت نہیں ہے۔ لیکن میرا بھائی 2.محمد الیاس بضدہے کہ والدین کے کاروبار کی وراثت کو سمجھنے والے علماءکرام کو آپ خط لکھیں۔ میرے بھائی 1.محمد عباس نے امداد کے طور پر 18 سالوں میں 2.محمد الیاس کی تقریبا 40 سے 50 لاکھ کی مدد کی ہے جس پر 2.محمد الیاس یہ کہتا ہے کہ بھائی 1.محمد عباس نے مجھے یہ کہہ کر کوئی رقم نہیں دی کہ یہ رقم میں تمہیں ہمارے والد کے شرعی حصہ سے دے رہا ہوں ،بلکہ 1.بھائی عباس نے ہمیشہ یہ کہا کہ میں تمہاری مدد کر رہا ہوں، کیونکہ تم 2.محمد الیاس مقروض ہو۔ 2.محمد الیاس کہتا ہے کہ جس طرح کرایہ  کی دکان کا 45 سال بھی کرایہ ادا کرنے سے دکان خود کی ملکیت نہیں بنتی، اسی طرح ورثہ میں سے کسی کو کچھ رقم مدد کے طور پر دینے سے کاروبار میں اس وارث کی ملکیت ختم نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ 2.محمد الیاس والد صاحب کے نام والا ایک  مکان جس کی قیمت 2023 میں تقریبا 25 لاکھ ہے اس میں ابھی بھی رہائش پذیر ہے جسے وہ خود 2.محمد الیاس وراثتی مانتا ہے اور 2.محمد الیاس نے ہماری والدہ مرحومہ کی ایک کمرشل دکان والدہ کو باتوں میں الجھا کر والدہ مرحومہ کی زندگی میں ہی اپنے قرض والوں کو 2009 میں۔جبکہ اس دکان کی قیمت 10 لاکھ تھی۔ 2.محمد الیاس نے 10لاکھ قرضہ میں دے دی۔اگر آج والدہ مرحومہ کی وہ دکان ہمارے پاس ہوتی تو اس کی قیمت آج 2023 میں تقریبا 1کروڑ ہوتی اور اگر مٹھائی کا کاروبار 2.محمد الیاس کے پاس ہوتا تو یہ اسے بھی ختم کر سکتا تھا کیونکہ 2.محمد الیاس مقروض ہے جس پر 2.محمد الیاس کہتا ہے کہ مجھے اگر یہ کاروبار نہیں دینا چاہتے تو میرے بچوں کو یہ کاروبار 7 سال کے لیے دے دو ،کیونکہ 1.بھائی عباس نے بھی والد کے اس کاروبار کو والد کی وفات کے بعد تقریبا 18 سال سنبھالا ہے۔ کیا اس کی یہ باتیں درست ہیں؟

سوال یہ ہے کیاوالد کے شروع کیے گئے اس کاروبار میں آج بھی ہمارے والدکے باقی ورثہ کا بھی حصہ موجود ہے؟ جبکہ اس کاروبار کو اب تک ہمارے بھائی 1.محمد عباس نے سنبھالا، قرضوں سے نکالا اور اپنی محنت سے ترقی دی اور ہماری مدد بھی کی ،ایسے میں شریعت کیا کہتی ہے۔ رہنمائی فرمادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں اگر چہ محمد عباس نے کاروبار کو سنبھالا، لیکن کاروبار کے اصل مالک چونکہ  والد مرحوم تھے، اس لیے والد کی وفات کے بعد اس کاروبار پر دیگراموال کی طرح میراث کے احکام لاگو ہوں گےاور اس میں تمام ورثہ کا حق ہوگا۔ لہذا اس کاروبار سے والد کے تمام ورثہ کو شرعی اصولوں کے مطابق حصہ ملے گا۔

چونکہ میت کی وفات کے بعد کاروبار کو تقسیم نہیں کیا گیا ،اس لیے تمام ورثہ اپنے شرعی حصہ کے تناسب سے اس کاروبار اور اس سے اب تک حاصل شدہ منافع میں شریک سمجھے جائیں گے، اس لیے والد  کی وفات سے اب تک کاروبار کی مالیت میں جو اضافہ ہوا ہے،اس میں سے بھی  سب کو ان کے شرعی حصے کے حساب سے حصہ ملے گا۔

 البتہ اگر محمد عباس   نے واقعتا اکیلے ہی کاروبار کو باقاعدہ سنبھالا، تو انہیں عرف کے مطابق اپنی خدمات کی اجرت مثل لینے کا حق حاصل ہو گا، یعنی ان جیسی صلاحیت والا آدمی کسی کے پاس یہی کام کرتا اور وہ مطالبہ کریں تو اسے جتنی تنخواہ  ملتی ،اتنی تنخواہ  یہ بھی لے سکتے ہیں۔جبکہ باقی کاروبار میں تما م ورثہ کا حق ہوگا ۔البتہ اگر ورثہ محمد عباس کے احسانات کی وجہ سے ان سے اپنا حق نہ لیں تو یہ بھی درست ہے ۔اورجو رقم محمد عباس نے محمد الیاس کو مدد کے طور پر  دی تھی چونکہ اس میں کسی قسم کا معاہدہ نہیں ہوا تھا کہ یہ والد کی میراث کا حصہ ہے، اس لیے وہ میراث کی ادائیگی نہیں کہلائے گی ۔بلکہ یہ ہبہ و تبرع شمار ہوگا ۔

 چونکہ مر ض الموت سے پہلے پہلے  اپنی زندگی میں ہر شخص کو اپنے ذاتی مال و جائیداد میں ہر قسم کے جائز تصرفات کا اختیار حاصل ہے،لہذا اگر والدہ نے محمد الیاس کو اپنی زندگی میں اپنی خوشی اور رضامندی سے دکان دی تھی تو یہ دکان محمد الیاس کی ہوگی اس میں میراث جاری نہیں ہوگی ۔

حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ :الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ،ولم يكن لهما شيء ،فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله. (رد المحتار (325/4:
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ :لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية ولواختلفوا  في العمل والرأي.(رد المحتار:325/4)
قال العلامۃ علي حیدر :تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم ، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية :أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة ؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما .       (درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (53/ 8:
قال العلامۃ علي حیدر :إذا بذر بعض الورثة الحبوب المشتركة بين جميع الورثة في الأراضي المورثة أو في أراضي الغير بإذن الورثة الآخرين أو إذن وصيهم أو بإذن القاضي إذا كان الورثة صغارا فتكون الحاصلات مشتركة بينهم جميعا ، والحال الذي يوجب أن تكون الحاصلات مشتركة بينهم هو كون البذر مشتركا بينهم وكون الوارث الزارع قد زرع بإذن أصحاب الحصص الآخرين سواء زرع في الأراضي الموروثة أو في أراضي الغير أي في الأرض المأجورة أو المستعارة ( الفتاوى الجديدة ) أو في ملكه الخاص ، وفي هذه الصورة يكون الزارع أصيلا عن نفسه ووكيلا عن شركائه في الزراعة.) درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (102/ 8:
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ :: استعان برجل في السوق ليبيع متاعه فطلب منه أجرا فالعبرة لعادتهم، وكذا لو أدخل رجلا في حانوته ليعمل له. (رد المحتار (42/ 6:
(قوله فالعبرة لعادتهم) أي لعادة أهل السوق، فإن كانوا يعملون بأجر يجب أجر المثل وإلا فلا. (قوله اعتبر عرف البلدة إلخ) فإن كان العرف يشهد للأستاذ يحكم بأجر مثل تعليم ذلك العمل. (رد المحتار) (42/ 6:                                                           قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ :الأرث جبري لا يسقط بالإسقاط .(رد المحتار :116/8)
قال النبي صلي اللہ عليه وسلم :إذا كانت الھبۃ لذى رحم محرم لم يرجع فيھا .(المستدرک:ح2324)
قال جمع من العلماء رحمهم اللہ :ولو وھب رجل شیئا لأولاده في الصحة و أراد تفضيل البعض علي البعض في ذالك لارواية لهذا في الأصل عن أصحابنا .(الفتاوی الھندیۃ:391/4)

 محمد مفاز

دارالافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی  

22 ربیع الثانی1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مفاز بن شیرزادہ خان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے