81927 | خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائل | متفرّق مسائل |
سوال
میرے والد صاحب زندہ ہیں، والدہ کا انتقال ہوگیا ہے، ہم دو بہن بھائی ہیں، میرے دادا اور دادی کا انتقال ہوچکا ہے، چچا اور پھوپھی کوئی نہیں ہیں۔ میرے والد صاحب کے پاس ان کا اپنا 100 گز کا ذاتی گھر، کچھ تھوڑا سا سامان، چارپائیاں، رضائیاں اور کچھ برتن وغیرہ ہیں۔ میں شادی شدہ ہوں۔ میرا بھائی غیر شادی شدہ ہے، پندرہ سال کی عمر میں اس کا ذہنی توازن خراب ہوگیا تھا، اب پینتالیس سال عمر ہے۔ جب تک والد صاحب کی صحت تھی، والد صاحب اور بھائی اکیلے رہتے تھے۔ ایک سال سے والد صاحب اور بھائی میرے ساتھ رہ رہے ہیں، ان کی کفالت میرے شوہر کر رہے ہیں، ہمارے علاوہ ان کا کوئی ہے بھی نہیں، والد صاحب جسمانی اور ذہنی طور پر بہت کمزور ہوچکے ہیں۔ جب والد صاحب کی صحت تھی تو انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میرے بعد اس گھر میں آکر رہنا اور بھائی کا خیال رکھنا۔ وہ گھر اب خالی پڑا ہے، بہت ٹوٹا پھوٹا ہے، رہنے کے قابل نہیں ہے؛ اس لیے ہم چاہ رہے ہیں کہ اس کو بیچ کر دوسرا گھر خرید لیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا میں یہ گھر اپنے فیصلے پر فروخت کرسکتی ہوں؟ شریعت میں یہ جائز ہے یا نہیں؟ اگر دوسرا گھر خرید لیں تو وہ کس کے نام ہوگا؟ ابھی تو کوئی مسئلہ نہیں، لیکن کل کو اگر اللہ تعالیٰ میرے بھائی کو صحت دے تو ان کو حصہ دینا پڑے گا، ان کا کتنا حصہ ہوگا اور میرا کتنا حصہ ہوگا؟ میں نے والد سے پوچھا تھا کہ یہ گھر کرایہ پر دیدیں تو انہوں نے کہا نہیں۔ ایک سال سے گھر بند پڑا ہے۔ میرے والد صاحب مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ کے شاگرد اور ان سے بیعت ہیں، شریعت کے مکمل پابند تھے، مگر اب (ذہنی کمزوری کی وجہ سے) بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔ مجھے خوف ہے کہ کہیں مجھ سے حقوق العباد میں کوئی کمی نہ ہوجائے، گھر کے پیسے اگر میرے پاس رکھے ہوں اور کہیں کچھ خرچ ہوجائے تو اس کا کیا حساب ہوگا؟ گھر کو اگر فروخت نہ کریں تو بند پڑا رہے گا؛ کیونکہ ہمارے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ اس کی مرمت کریں اور خود رہیں۔
تنقیح: سائلہ نے فون پر بتایا کہ میں نے کچھ عرصہ پہلے والد صاحب سے مکان بیچنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے منع کیا، اس وقت ان کی طبیعت کچھ بہتر تھی۔ اس کے بعد دو ماہ بہت بیمار ہوگئے تھے، کھانا پینا بالکل بند ہوگیا تھا، اس کے بعد سے میں ان کو اپنے پاس لائی ہوں، والد صاحب اور بھائی دونوں میرے پاس ہیں۔ اب والد صاحب بہتر تو ہیں، لیکن ویسے نہیں ہیں جیسے پہلے تھے۔ ذہنی توازن بالکل خراب ہے۔ کپڑا اٹھا کر کہتے ہیں یہ میرا گھر ہے۔ مجھے کبھی اپنی ماں کہتے ہیں، کبھی بہن اور کبھی بیٹی۔ واش روم میں بیٹھ کر ساری ٹینکی خالی کر دیتے ہیں، استنجاء اور نماز وغیرہ کی سمجھ بھی ختم ہوگئی ہے۔ ابھی تو میں نے ان سے گھر بیچنے کا دوبارہ نہیں پوچھا، لیکن والد صاحب اور بھائی دونوں میرے پاس ہیں، بھائی بھی ذہنی مریض ہیں، گولیاں کھاتے ہیں، ان کو بھی علاج کے لیے لے جانا پڑتا ہے، والد صاحب کو بھی لے جانا پڑتا ہے میں یہ چاہ رہی تھی کہ یہ گھر ہے، ہماری اتنی استطاعت نہیں کہ اس کو بنا سکیں، تو یہ گھر بیچ کر والد صاحب اور بھائی کا علاج کروں گی۔ میرے شوہر سب کچھ کر رہے ہیں، لیکن مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ اور ان دونوں کی ذمہ داری میرے کندھوں پر آگئی ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ انسان جب تک زندہ ہو، اس کا مال اس کی ملکییت میں رہتا ہے، میراث نہیں بنتا۔ اس لیے صورتِ مسئولہ میں یہ گھر اور اس کے علاوہ والد صاحب کا جو بھی ساز و سامان ہو، وہ سب انہی کا ہے، آپ کا اور آپ کے بھائی کا فی الحال اس میں کوئی حصہ نہیں۔ لہٰذا آپ یہ گھر اس مقصد کے لیے تو نہیں بیچ سکتی کہ کچھ رقم آپ لیں اور کچھ بھائی اور والد صاحب کے لیے رکھ دیں۔ البتہ آپ والد صاحب کے لیے یہ گھر بیچ سکتی ہیں یا نہیں؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی آپ اپنے بل بوتے پر نہیں کرسکتی؛ کیونکہ انسان کے مال میں ولایت اور تصرف کا حق پانچ بندوں کو بالترتیب حاصل ہوتا ہے، والد کو، جس کو والد نے وصیت کی ہو، دادا کو، جس کو دادا نے وصیت کی ہو، قاضی کو اور جس کو قاضی مقرر کرے اس کو۔ اس لیے اگر سوال میں ذکر کردہ صورتِ حال درست ہے، والد صاحب کا علاج اور دیگر اخراجات آپ کے شوہر کے لیے برداشت کرنا مشکل ہے اور والد صاحب کی ذہنی کیفیت ایسی نہیں کہ ان سے گھر بیچنے کا پوچھا جا سکے تو کسی بھی عدالت میں جا کر ان کے سامنے ساری صورتِ حال رکھ لیں اور جب قاضی یعنی جج آپ کو اجازت دے تو اس کے بعد یہ گھر والد صاحب کے لیے مناسب قیمت پر بیچ دیں، گھر کی مارکیٹ ویلیو سے کم میں بیچنا پھر بھی جائز نہیں ہوگا۔ اگر عدالت سے یہ فیصلہ کرانے میں مشکلات ہوں تو پھر جماعت المسلمین یعنی چند سمجھ دار اور نیک صالح مسلمانوں کے سامنے پوری صورتِ حال رکھ دیں، اگر وہ آپ کو والد صاحب کے لیے یہ گھر بیچنے کی اجازت دیں تو پھر آپ یہ گھر والد صاحب کے لیے بیچ سکیں گی۔ گھر بیچ کر جو رقم حاصل ہوگی وہ آپ کے پاس والد صاحب کی امانت ہوگی جو ان کے علاج معالجے اور دیگر ضروریات میں مناسب طریقے سے خرچ کر سکیں گی۔ اگر آپ کے بھائی کا اپنا کوئی مال نہ ہو تو والد صاحب کی اس رقم سے ان کا علاج معالجہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس مال سے صدقہ، خیرات نہیں کر سکیں گی، اسی طرح والد صاحب کی حیات تک اس میں سے اپنے لیے کچھ نہین لے سکتیں۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد جتنی رقم باقی ہوگی وہ اس وقت موجود ورثا کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی، اگر آپ کا بھائی اس وقت زندہ ہوگا تو اسے اس کا حصہ ملے گا، ذہنی طور پر معذور ہونے کی وجہ سے وہ میراث سے محروم نہیں ہوگا، البتہ اس کے ٹھیک ہونے تک آپ اس کا حصہ اپنے پاس رکھ کر (عدالت یا جماعت المسلمین کی اجازت سے) اس کی ضروریات میں خرچ کرنے کی مجاز ہوں گی۔
حوالہ جات
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 52):
والولي: هو الذي يحق له التصرف في مال الغير بدون استحصال إذن برضاء صاحب المال، وهذا بعكس الوكيل، فالوكيل وإن تصرف في مال الغير، فتصرفه مقرون برضاء صاحب المال.
الدر المختار (3/ 76):
( الوالي في النكاح ) لا المال ( العصبة بنفسه ) وهو من يتصل بالميت حتى المعتقة ( بلا توسطة أنثى ) بيان لما قبله ( على ترتيب الإرث والحجب ).
رد المحتار (3/ 76):
قوله ( لا المال ) فإنه الولي فيه الأب ووصيه والجد ووصيه والقاضي ونائبه فقط، ح.
الدر المختار (6/ 715-711):
وجاز بيعه عقار صغير من أجنبي لا من نفسه بضعف قيمته أو لنفقة الصغير أو دين الميت أو وصية مرسلة لا نفاذ لها إلا منه أو لكون غلاته لا تزيد على مؤنته أو خوف خرابه أو نقصانه أو كونه في يد متغلب، درر وأشباه مخلصا. قلت: وهذا لو البائع وصيا، لا من قبل أم أو أخ، فإنهما لايملكان بيع العقار مطلقا، ولا شراء غير طعام وكسوة، ولو البائع أبا فإن محمودا عند الناس أو مستور الحال يجوز، ابن كمال. …… ( ووصي أبي الطفل أحق بماله من جده وإن لم يكن وصيه فالجد ) كما تقرر في الحجر.
رد المحتار (6/ 715-711):
قوله ( وجاز بيعه عقار صغير الخ ) أطلق السلف جواز بيعه العقار، وقيده المتأخرون بالشروط المذكورة كما في الخانية وغيرها. قال الزيلعي: قال الصدر الشهيد: وبه يفتى، أي بقول المتأخرين، وما في الأشباه من أنه لا يجوز عند المتقدمين سبق قلم، فتنبه……… قوله ( أو لنفقة ) أي وإن كان بمثل القيمة أو بغبن يسير، ط. أقول: وكذا يقال فيما بعد فيما يظهر بدليل جعله مقابلا للأول. ……….. قوله ( لا من قبل أم أو أخ ) أي أو نحوهما من الأقارب غير الأب والجد والقاضي، ويأتي آخر الباب تمام الكلام في ذلك. قوله ( مطلقا ) أي ولو في هذه المستثنيات وإذا احتاج الحال إلى بيعه يرفع الأمر إلى القاضي، ط………….. الخ
قوله ( ووصي أبي الطفل أحق الخ ) الولاية في مال الصغير للأب، ثم وصيه ثم وصي وصيه ولوبعد، فلو مات الأب ولم يوص فالولاية لأبي الأب، ثم وصيه، ثم وصي وصيه، فإن لم يكن فللقاضي ومنصوبه.
الدر المختار (3/ 614-612):
( وتجب ) النفقة بأنواعها على الحر ( لطفله ) يعم الأنثى والجمع ( الفقير )…… ( وكذا ) تجب ( لولده الكبير العاجز عن الكسب ) كأنثى مطلقا وزمن….. الخ
رد المحتار (3/ 614):
قوله ( وزمن ) أي من به مرض مزمن، والمراد هنا من به ما يمنعه عن الكسب، كعمى وشلل، ولو قدر على اكتساب ما لا يكفيه فعلى أبيه تكميل الكفاية.
شرح مختصر الخليل للخرشي(4/ 198):
وجماعة المسلمين العدول يقومون مقام الحاكم في ذلك، وفي كل أمر يتعذر الوصول إلى الحاكم أو لكونه غير عدل.
امداد الفتاویٰ (3/26-25):
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
11/جمادی الاولیٰ/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |