021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والداپنی بیٹی کارشتہ خاندان میں کرنےپراصرارکرےتوکیاحکم ہے؟
82050نکاح کا بیاننکاح کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

السلام و علیکم !حضر ت  جی مجھے آپ سے اپنے ایک مسلئے کا حل پوچھنا ہےوہ یہ کہ میرے شوہر نے میری بیٹی کا رشتہ ماموں کے بیٹے کے ساتھ کیا ہے اور ان کےماموں اور ان کے بیٹے کےبارےمیں  غالب گمان ہے کہ ان کا سود کا کاروبار ہے ،میرے شوہر نےمجھے اور میری بیٹی کو بتائے بغیر رشتہ کر دیا اور پورے خاندان کو بتا دیا ، جب میں نے اپنے شوہر سے کہا کے ہم یہ رشتہ نہیں کریں  گے، کیونکہ ان کا سود کا کا کاروبار ہے اور ہم اپنی بیٹی کی کی آخرت خراب نہیں کریں گے تو ان کا کہنا ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے  کیونکہ  میرے ابواور میری امی نے کہا ہے اور اگر رشتہ ٹوٹ جاتا ہے ) تو خاندان والے کیا کہیں گے؟ حضرت جی برائے مہربانی آپ مجھے آپ کوئی وظیفہ ،دعا یا اس مسلے کا حل بتائیں،تاکہ میرا شوہر سسراور ساس اس رشتے سے پیچھے ہٹ جائیں اور میری بیٹی کی دنیاوآخرت سنور جائے ۔

اور میرا بیٹا بھی بہت نافرمان ہو گیا ہے اس مسئلہ کابھی حل بتادیں۔

ان کا کاروبار یہ ہےکہ بیرون ملک سےکمپنی ان کو بیج، کھاد اور فصل میں استعمال ہونی والی دوائیاں بیچتی ہیں، یعنی جو بھی چیز فصل میں استعمال ہوتی ہیں وہ کمپنی ان کو وہ چیز یں ان کے گودام میں آکر دیتی ہے، اگر کمپنی ان کو ایک پیکٹ 100 روپے کا دیتی ہے تو وہ یہ پیکٹ 1000 روپے کا بیچتے ہیں اور اگر پیکٹ 1000روپے کا ہے تو یہ وہ پیکٹ 10,000 روپے کا بھی بیچتے ہیں،حالانکہ وہ کمپنی ان کو سارا مال دکان پر دے کر جاتی ہے، نہ ان کو مال لانے کے لیے کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے نہ ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود یہ اتنی مہنگی کر کے فروخت کرتے ہیں، اندرون سندھ میں جو ابھی سیلاب آیا ہوا تھا اس میں فصلیں تباہ ہوگئی  تھی ،جس کی وجہ سے کمپنی نے ان کو وہ مال جو دیا تھا اس کے پیسے نہیں لیے ،لیکن انہوں نے غریب لوگوں سے جن کو سامان بیچا تھا ڈیڑھ  کر روڑ روپے لیے، حالانکہ کمپنی نے وہ معاف کرنے کے لیے کہا تھا کہ آپ  پیسےلوگوں سےنہ لیں،مگرانہوں نےلیےاوریہ کاروبار 15سالوں سےکررہےہیں۔

مسئلہ یہ نہیں کہ وہ ہم سے زیادہ امیر ہیں،بلکہ اللہ تعالٰی نے ہمیں ان سے زیادہ نوازا ہے اوراللہ تعالی کا شکر اور رحم ہے کہ حق و حلال کا نوازا ہے،میرے شوہر ان سے مال کی لالچ میں  رشتہ نہیں کررہے، بلکہ ان کامقصدیہ ہےکہ یہ اپنے ہیں اور اس بات پر ہمارا بہت جھگڑا بھی ہو چکا ہے، ان کا کہنا ہے کہ چاہے آپ راضی ہو ں یا نہ ہوں، چاہے ہماری بیٹی راضی ہو یا نہ ہو، آپ کچھ بھی کرلو شادی تو میں یہاں ہی کرونگا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔

اللہ تعالی کے رحم سےمیری  3 بیٹیاں ہیں۔

میری بڑی بیٹی کے غیروں سے ماشاء اللہ بہت اچھے رشتے آتے ہیں ! لیکن وہ نہیں کرتے،وہ کہتےہیں  رشتے دار چاہیے، جیسے بھی ہو یعنی وہ سود کا کاروبار کرےیا لڑکے یونیورسٹی میں شراب یانشہ وغیرہ کرتے ہوں، اللہ تعالٰی معاف کرنے والے ہیں، میں اپنی بیٹیوں کا رشتہ وہی پر کرونگا، میرے شوہر کا کہنا ہے کہ لڑکا خاندان کا ہو دنیاوی تعلیم ہو ،چاہے جو وہ کرتا ہے فرق نہیں پڑتا ۔

میرے شوہر نماز و قرآن کے پابند بھی ہیں، حج و عمرہ وغیرہ بھی کرتے ہیں، اور اللہ تعالٰی جس چیز سے روکتے ہیں اسے برا بھی جانتے ہیں، مگر صرف بیٹیوں  کے معاملے میں پتہ  نہیں کیوں ایسے ہو جاتے ہیں۔

میں اللہ تعالیٰ سےبہت توبہ و استغفار کرتی ہوں، نماز وغیرہ بھی پابندی سے پڑھتی ہوں، مگر ان کے ابوپیچھے نہیں ہٹ رہے، آپ دعا کریں کہ ان کے ابو اور ان کے دادا دادی اس رشتے سے پیچھے ہٹ جائیں،اور میرےاور میرے شوہر کے درمیان  بھی  کوئی بھی بد نظمی نہ ہو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شرعاوالدین باہمی رضامندی سےاپنےبچوں کارشتہ کرناچاہیں کرسکتےہیں،عمومی طورپررشتہ کی تلاش میں دین کومقدم کرناچاہیے،رشتہ داری ،مالداری وغیرہ بعدکی چیزیں ہیں،صورت مسئولہ میں  والد بیٹی کارشتہ جہاں کرناچاہ رہےہیں اگروہ دیندارہیں  تواسی رشتہ کو باقی رکھنےمیں شرعاحرج نہیں،ہاں والدکوچاہیےکہ بیٹی سےضرور مشورہ کرلے،کیونکہ اگربیٹی وہاں رشتہ پرراضی نہیں توپھررشتہ کرنےکےبعد لڑائی جھگڑےوغیرہ کابھی خطرہ ہوگا،والد کوچاہیےکہ ابھی سےاس سےمشورہ کرکےرشتہ کرے۔

رہی بات "ان کےماموں اوران کےبیٹےکےبارےمیں  غالب گمان ہے کہ ان کاسودکاکاروبارہے" توواضح رہےکہ  کاروبارکی  مذکورہ بالاتفصیل کےمطابق   ان کےدوطرح کےکام ہیں:

۱۔جوچیزیں ان کو  سستی پڑتی ہیں وہ مہنگےداموں بیچنا، یہ معاملہ سود میں داخل نہیں ،کیونکہ سود توایک خاص اصطلاح ہے،اس کااطلاق اس معاملےپرنہیں ہوتا،اس کو زیادہ سےزیادہ شرعانامناسب اورمکروہ کہہ سکتےہیں،اس کی وجہ سےکمائی پرکوئی فرق نہیں پڑتا،کیونکہ شریعت نےاپنی چیزپرنفع کےلئےکوئی خاص تناسب متعین نہیں کیا،بلکہ اس کوبیچنےوالے پرچھوڑدیاہےکہ وہ جتنانفع کماناچاہےکماسکتاہے،ہاں اتناضرورہےکہ جتنابھی نفع ہووہ تاجروں کےعرف ورواج اورفریقین کی باہمی رضامندی سےطےہو،تاہم فقہاء نےلکھاہےکہ اتنانفع لیناجوغبن فاحش کےدائرےمیں آتاہومکروہ ہے،غبن فاحش سےمرادیہ ہےکہ کسی چیزکی بازارمیں زیادہ سےزیادہ جوقیمت لگائی جاسکتی ہے،اس سےبھی زیادہ قیمت لگائی جائے۔

"بحوث فی قضایافقہیہ معاصرۃ"  8 :

وللبائع ان یبیع بضاعتہ بماشاء من ثمن ولایجب علیہ ان یبیعہ بسعر السوق دائما۔

"الھندیۃ" 3/131 :ومن اشترى شيئا وأغلى في ثمنه جاز ۔

۲۔ جوچیزیں ،ان کو مفت ملتی ہیں ،ان کو آگےپیسوں سےبیچنایہ معاملہ  بھی کمپنی سےمعاہدہ کی خلاف ورزی ،غلط بیانی اوردھوکہ دہی  پرمشتمل ہونےکی وجہ سےناجائزتوہوگا،لیکن اس سےکمائی حرام نہیں ہوتی۔

وقال اللہ تعالی فی سورۃ  بنی اسرائیل: آیت نمبر 34 :

واوفوبالعہدان العہدکان مسئولا۔

"تفسير ابن كثير " 5 /  74:

وقوله [تعالى] (3) : { وأوفوا بالعهد } أي الذي تعاهدون عليه الناس والعقود التي تعاملونهم بها، فإن العهد والعقد كل منهما يسأل صاحبه عنه { إن العهد كان مسئولا } أي: عنه۔

"صحيح مسلم "1 /  99:

عن أبي هريرة  أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال من حمل علينا السلاح فليس منا ومن غشنا فليس منا۔

مذکورہ بالا دونوں معاملات چونکہ سود میں داخل نہیں،لہذا اگر(مذکورہ بالاکاروبارکےعلاوہ )لڑکے کاسودکاکوئی اورکاروبارنہ ہوتوصرف اس وجہ سےرشتہ سےانکارکرنابظاہرمناسب نہیں،ان کواچھی طرح سمجھانا چاہیےتاکہ وہ اپنےکاروبارمیں دھوکہ دہی وغیرہ سےکام نہ  لیں،ممکن ہےرشتہ کرنےکےبعدکاروبارمکمل شریعت کےمطابق ہوجائے۔

چونکہ آپ کی تفصیل کےمطابق لڑکی کاوالدخوددیندارہےاوروہ اس رشتہ سےمطمئن بھی ہےتواگرکوئی اوراس سےبہتررشتہ نہیں ملتاتوجلدرشتہ کردیناچاہیےاوراگرلڑکےکاکاروبارواقعتاسودکاہی ہوتوپھربہرصورت والدکواس رشتہ سےانکارکرنےپر تیارکرناچاہیےاوراگررشتہ سےانکارپرتیارنہ ہوتورشتہ کرتےوقت  آپ کی طرف سے اس طرح کےکاروبارچھوڑنےکی شرط بھی  شرعالگائی جاسکتی ہے۔

ہاں اگرلڑکی خود  اس رشتہ پرتیارنہ ہوتوپھروالدکی طرف سےزبردستی  کرنامناسب نہیں،لڑکی کی رضامندی کو مدنظررکھناشرعاضروری ہوگا۔

حوالہ جات
۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

20/جمادی الاولی     1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے