021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بغیرولی کےنکاح اوراس کے بعدتین طلاق کا حکم
82040طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

لڑکی کا بیان:

میں ایک 20 سالہ خاتون ہوں اور مجھے فتو ٰی کی اشد ضرورت ہے۔ مسئلہ درج ذیل ہے:ایک سال پہلے جب میں 19 سال کی تھی اور میرا ایک کزن 22 سال کا تھا تو ہم بہت قریب ہو گئے، لیکن ہم اپنے تعلق کو حلال کرنا چاہتے تھے، اس نے اپنے 2 دوستوں کو بطور گواہ اور اپنے تیسرے ایک دوست کو،جو کہ ایک مقامی مدرسے میں طالب علم تھا، قاضی/نکاح خوان کے طور پر بلالیا، میں اور میرا کزن اس کے دوست کے گھرگئے اور ایک کمرے میں، میں، میرا کزن،قاضی اور اس  کا ایک دوست بطور گواہ موجود تھا۔ان کی موجودگی میں تین بار قبول ہےکہتے ہوئے میرا نکاح ہوا۔ دوسرا گواہ دوسرے کمرے میں تھا اور اس نے نکاح کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور نہ سناصرف جانتا تھا کہ نکاح ہو رہا ہے،ان لوگوں کےعلاوہ کسی کو بھی نکاح کے بارےمیں کچھ معلوم نہیں تھا۔تعلیم کےلحاظ سے میں ایک سرکاری ادارے سے ایم بی بی ایس کر رہی ہوں اور وہ ایک سرکاری ادارے سے ڈی فارمیسی کی تعلیم حاصل کر رہا ہے، اس کا تعلق بھی میرے خاندان اورنسب سے ہے، اس کا خاندان مالی طور پر مجھ سے کم ہے، کیونکہ میرےوالد زیادہ کماتے ہیں۔ میرے پاس بیرون ملک کی شہریت بھی ہے اور وہ نہیں رکھتا۔ دین کے معاملے میں دونوں گھرانےایک جیسے ہیں۔ میرے والد نے مجھےکسی اور سے شادی کرنے پر مجبور نہیں کیا، وہ ذہنی طور پر بھی صحت مندہیں۔ ہم نے خفیہ نکاح صرف اس لیے کیا کہ ہم نے سوچا کہ ہمارے والدین دونوں اس وجہ سے راضی نہیں ہوں گے کہ ابھی ہم چھوٹے ہیں اور ہماری تعلیم مکمل نہیں ہوئی۔

 مختلف ذاتی چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کی وجہ سے کل میرے کزن نے مجھے تین طلاقیں دی تھیں، لیکن ہم دونوں کو اس کے فورا بعد95 فیصدلوگوں نے کہا کہ ولی کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے یہ نكاح نہیں ہوا۔ یوٹیوب پر پاکستانی مفتیوں کی اکثریت کو سننے کے بعد پتا چلا کہ ان کے مطابق یہ نکاح غلط اور باطل ہے اور ناجائز ہے۔ اب ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارا نکاح جائز تھا؟ اور مجھے دی گئی تین طلاقیں بھی جائز ہیں یا نہیں؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا دوبارہ نکاح کرنے کے لیے ہمیں حلالہ کرنا ہوگا یا نہیں؟ کیونکہ ہم نے ایک دوسرےسے ہمبستری نہیں کی ہے، لیکن ہم اکثر ایک پرائیویٹ کمرے میں ملتے تھے جہاں یہ ممکن تھا، اس طرح سے کہ میرے ہی گھرمیں وہ چھپ کر آ تا اور میں دروازہ کنڈی کر لیتی تھی، گنجائش ہوتی تھی کہ کبھی بھی کوئی بھی اندر آنے کی کوشش کرے اور اسکو فورا بھاگنا پڑے۔ اگر حلالہ ضروری نہیں ہے تو کیا میں اپنے ولی کی اجازت سے اس سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہوں؟کوئی بھی جواب بہت بڑا ریلیف ہو گا شکریہ مزید حدیث کا حوالہ ہے ترمذی 1101 اور 1102 ، ابن ماجہ 1882 ، صحیح مسلم 3438وغیرہ ۔ہم دونوں حنفی ہیں۔

لڑکے کا بیان:

میں نےاورمیری ماموں زادلڑکی نےحرام سےبچنےکےلیےوالدین کو بتائے بغیران سےچھپ کرنکاح کیا۔ نکاح کے لیے مدرسے کے ایک طالب علم کو بطور نکاح خواں بلوایا اور اپنے دو دوستوں کو بطور گواہ بلوایا، ایجاب و قبول کے وقت کمرے میں نکاح خواں، ایک گواہ اور میں اور میری کزن موجودتھے، جبکہ دوسرا گواہ باہر دوسرے کمرے میں بیٹھا تھا اور وہ یہ بات بھی جانتاتھا کہ نکاح ہو رہا ہے اور اسے بطور گواہ بلوایا گیا ہے۔

سوال 1: کیا ہمارایوں لڑکی کے ولی کی اجازت کے بغیر اور گھر سے چھپ کر نکاح ہو گیا ہے؟

سوال 2: کیا دوسرے گواہ کے موقع پر موجود نہ ہونے اور ایجاب و قبول کو خود اپنے کانوں سے نہ سننے اور اپنی آنکھوں سے نہ دیکھنے پر نکاح ہو گیا یا نہیں ؟

سوال 3 : کیا اس نکاح کے بعد دی گئی تین طلاقیں واقع ہوں گی؟ اور کیا اس کے بعد حلالہ کے بغیر نکاح کی تجدید درست ہوگی؟

سوال 4:میں کفو کے احکام کے بارےمیں جاننا چاہتا ہوں؟  تاکہ یہ معلوم کر سکوں کہ نکاح صحیح ہے یا نہیں؟کزن ہونےکی وجہ سے ہمارا تعلق ایک ہی خاندان اور نسب سے ہے، وہ میرے مامو ں کی بیٹی ہے،وہ ایک سرکاری ادارے میں ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کر رہی ہے اور میں ایک سرکاری یونیورسٹی سے ڈی فارمیسی کر رہا ہوں، میرے والد واپڈا سے ریٹائرڈ ہیں اور میری والدہ نکاح کے وقت پری اسکول والوں کو پڑھاتی تھیں، لیکن اب انہوں نے مستقل طور پر ملازمت چھوڑ دی ہے۔ میرا ماموں سول انجینئر ہے ،اس لیے اس کی بنیادی تنخواہ میرے والدین سے زیادہ ہے۔ میں نے اپنی کزن کو حق مہر کے طور پر5000 روپے دیے، کیونکہ یہ وہی رقم تھی جو میں ارینج کر سکتا تھا، جب کہ اس کے خاندان کی دوسری خواتین کو لاکھوں میں مہر مل چکا، یعنی ان کا مہر مثل لاکھوں کا ہے۔ نکاح کے وقت اور اب بھی میں اس کی مالی مدد نہیں کر سکتا،  یعنی نفقہ نہیں سنبھال سکتا اور نہ ہی اسے استعمال کے لیے کوئی رقم دے سکتا ہوں اور نہ ہی میں نے اس کی کوئی ذمہ داری لی ہے، میری کزن کے پاس بھی لاکھوں میں اپنی ذاتی بچت ہے اور نکاح کے وقت بھی تھی، لیکن میرے پاس ایسی کوئی بچت یا رقم نہیں ہے نہ تھی۔ میری کزن کینیڈا کی شہریت رکھتی ہے جبکہ میں نہیں رکھتا۔ براہ کرم تصدیق کریں کہ آیا میں اس کے کفو میں سے ہوں یا نہیں؟

نوٹ: حال ہی میں میں نے یوٹیوب پر بہت سے بیانات اود مسائل سنے ہیں، جن میں ولی کی اجازت کے بغیر اس قسم کے نکاح کو باطل اور ناجائز کہا گیا ہےاور یہ کہ یہ نکاح نہیں ہوا اور مندرجہ ذیل دلائل پیش کیے گئے ہیں:سنن ابن ماجہ 1880،مشکوۃ 3131،مسند احمد 6877،سورة البقرة 221، 232ہم دونوں حنفی مسلک سے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  1. مذکورہ صورت میں حنفیہ کے نزدیک عاقل بالغ مسلمان لڑکی کا اپنے ہوش وحواس کے ساتھ شرعی گواہوں کی موجودگی میں ولی کی اجازت کےبغیرکفو میں کیا گیا نکاح شرعا درست اور منعقد ہو چکا ہے، البتہ صورتِ مسئولہ میں خاتون کا حق مہر اس کے مہرِ مثل سے کم رکھا گیا تھا، جس کی وجہ سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے موقف کے مطابق تین طلاقیں دینے سے پہلے خاتون کے اولیاء کو مہر مثل مکمل کروانے اور بصورت دیگر عدالت کے ذریعہ نکاح ختم کروانے کا حق حاصل تھا۔

جہاں تک ولی کی اجازت نہ ہونے کا تعلق ہے تو حنفیہ کے نزدیک عاقلہ بالغہ کے نکاح کے لیے ولی کی اجازت کا ہونا ضروری نہیں اور حنفیہ کے اس موقف پر قرآن وسنت میں واضح اور قوی دلائل موجود ہیں، باقی سوال میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کے باطل ہونے سے متعلق  صحیح مسلم، سننِ ترمذی اور سنن ابن ماجہ کی جن احادیث کا حوالہ ذکر کیا گیا ہے وہ ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کے دلائل ہیں، حنفی مسلک سے تعلق رکھنے والے مردوعورت پر لازم ہے کہ وہ حنفیہ کے موقف کے مطابق ہی عمل کرے اور انہی کے دلائل کو راجح سمجھے، اس لیے مذکورہ صورتِ میں حنفی مردوعورت کے لیے اِن احادیث سے استدلال کر کے بغیر ولی کے عاقلہ بالغہ کے از خود کیے گئے نکاح کو باطل قرار دینا درست نہیں۔

  1. نکاح کے موقع پر دو عاقل بالغ مسلمان گواہوں یا دوعورتوں اور ایک مرد کا ہونا ضروری ہے اور مذکورہ صورت میں نکاح کے وقت ایک نکاح خواں اور ایک گواہ موجود تھا اور نکاح خواں خود بھی شرعی اعتبار سے گواہ بن سکتا ہے،اگرچہ اس کو گواہ کا نام نہ دیاجائے، اس لیے دوسرے شخص کے اس وقت حاضر نہ ہونے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا، لہذا یہ نکاح شرعاً درست ہوا ہے۔
  2. جی ہاں! صورتِ مسئولہ میں نکاح درست ہونے کی وجہ سے تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور مذکورہ عورت پر حرمتِ مغلظہ ثابت ہو چکی ہے اور فریقین کے درمیان نکاح ختم ہو چکا ہے، اس لیے اب اسی حالت میں دوبارہ نکاح یا رجوع نہیں ہو سکتا، البتہ اگر لڑکی اس شخص کی عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور وہ شخص اس سے ازدواجی تعلقات (ہمبستری)بھی قائم کرے اور پھر وہ اپنی مرضی سے طلاق دیدے یا فوت ہو جائے تو اس کی عدت گزارنے کے بعد فریقین باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں، ورنہ نہیں۔
  3. سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کے کفو ہیں، کیونکہ دونوں کا تعلق ایک ہی خاندان اور نسب سے ہے، دینداری میں بھی برابر ہیں، تعلیم اور پیشہ کے اعتبار سے ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں، کیونکہ ایم بی بی ایس کرنے والا اور ڈی فارمیسی کی ڈگری کا حامل عام طور پر  آمدن میں ایک دوسرے کے تقریباً برابرشمار ہوتے ہیں، باقی مالداری میں اگرچہ لڑکی کا خاندان زیادہ مال والا ہے،  لیکن مالداری  میں کفو کے لیے حنفیہ کی ظاہرالروایہ کے مطابق لڑکے کا صرف مہر اور نفقہ پر قادر ہونا کافی ہے اورعلامہ کاسانی رحمہ اللہ نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے اور اکابر کے فتاوی میں بھی اسی قول کو لیا گیا ہے، اور پھر اس سلسلے میں لڑکے میں مہرمعجل اور نفقہ برداشت کرنے  کی اہلیت ہونا کافی ہے، چنانچہ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ بہشتی زیور (حصہ چہارم:ص:165)میں فرماتے ہیں:

مال میں برابری کے معنی یہ ہیں کہ بالکل مفلس، محتاج مالدار عورت کے برابر کا نہیں ہے۔ اور اگر وہ بالکل مفلس نہیں، بلکہ جتنا مہر پہلی رات عورت کو دینے کا دستور ہے اتنا مہر دے سکتا ہے وہ اور نفقہ دینے کا اہل ہے تو اپنے میل اور برابر ہے، اگرچہ سارا مہر نہ دے سکے اور یہ ضروری نہیں کہ جتنے مالدار لڑکی والے ہیں لڑکا بھی اتنا ہی مالدار ہو ہو یا اس کے قریب قریب ہو۔

لہذا مذکورہ صورت میں لڑکا پارٹ ٹائم ملازمت کر کے بھی لڑکی کا نفقہ برداشت کرنے کی اہلیت رکھتا ہے،باقی کفو کے تحقق کے لیےحق مہر فقہائے کرام رحمہم اللہ کی تصریح کے مطابق مہرمثل کے برابر رکھنا ضروری نہیں، لہذا اس کی وجہ سے نکاح کے انعقاد پر کوئی اثر نہیں پڑا۔خلاصہ یہ کہ کفو کے پائے جانے کی وجہ سے فریقین کا نکاح درست ہوا تھا، اس لیے تین طلاق واقع ہونے کے بعد اب حلالہ کے بغیرخاتون کا پہلے شوہر سے نکاح کرنا ہرگز جائز نہیں۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 319) دار الكتب العلمية،بيروت:
والمعتبر فيه القدرة على مهر مثلها، والنفقة، ولا تعتبر الزيادة على ذلك حتى أن الزوج إذا كان قادرا على مهر مثلها، ونفقتها يكون كفئا لها، وإن كان لا يساويها في المال هكذا روي عن أبي حنيفة وأبي يوسف، ومحمد في ظاهر الرواية. وذكر في غير رواية الأصول أن تساويهما في الغنى شرط تحقق الكفاءة في قول أبي حنيفة، ومحمد خلافا لأبي يوسف؛ لأن التفاخر يقع في الغنى عادة، والصحيح هو الأول؛ لأن الغنى لا ثبات له؛ لأن المال غاد ورائح، فلا تعتبر المساواة في الغنى.
 (الهدايه في  شرح البداية:كتاب النكاح:1/185) دار احياء التراث العربي - بيروت:
النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي... ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين.
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 186) دار احياء التراث العربي – بيروت:
قال: " ومن أمر رجلا بأن يزوج ابنته الصغيرة فزوجها والأب حاضر بشهادة رجل واحد سواهما جاز النكاح " لأن الأب يجعل مباشرا للعقد لاتحاد المجلس فيكون الوكيل سفيرا أو معبرا فيبقى المزوج شاهدا " وإن كان الأب غائبا لم يجز " لأن المجلس مختلف فلا يمكن أن يجعل الأب مباشرا وعلى هذا إذا زوج الأب ابنته البالغة بمحضر شاهد واحد إن كانت حاضرة جاز وإن كانت غائبة لم يجز.
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 196) دار احياء التراث العربي – بيروت:
قال: " و " تعتبر " في المال وهو أن يكون مالكا للمهر والنفقة " وهذا هو المعتبر في ظاهر الرواية حتى إن من لا يملكهما أو لا يملك أحدهما لا يكون كفؤا لأن المهر بدل البضع فلا بد من إيفائه وبالنفقة قوام الازدواج ودوامه والمراد بالمهر قدر ما تعارفوا تعجيله لأن ما وراءه مؤجل عرفا وعن أبي يوسف رحمه الله أنه اعتبر القدرة على النفقة دون المهر لأنه تجري المساهلة في المهور ويعد المرء قادرا عليه بيسار أبيه فأما الكفاءة في الغنى فمعتبرة في قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله حتى إن الفائقة في اليسار لا يكافئها القادر على المهر والنفقة لأن الناس يتفاخرون بالغنى ويتعيرون بالفقر وقال أبو يوسف رحمه الله لا يعتبر:
(ردالمحتار على الدر المختار:كتاب النكاح، باب الكفاءة، ج:3، ص:86):
ونظم العلامة الحموي ما تعتبر فيه الكفاءة فقال:إن الكفاءة في النكاح تكون في ست لها بيت بديع قد ضبط نسب وإسلام كذلك حرفة حرية وديانة مال فقط.
(الفتاوی الهنديه: كتاب النكاح، الباب الخامس في الأكفاء في النكاح، ج:1، ص:293):
ولو تزوجت المرأة ونقصت من مهر مثلها فللولي الاعتراض عليها حتى يتم لها مهرها أو يفارقها وإذا فارقها قبل الدخول فلا مهر لها، وإن فارقها بعده فلها المسمى وكذا إذا مات أحدهما قبل التفريق وهذا عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وقالا: ليس له الاعتراض هكذا في التبيين ولا تكون هذه الفرقة إلا عند القاضي وما لم يقض القاضي بالفرقة بينهما فحكم الطلاق والظهار والإيلاء والميراث باق، كذا في السراج الوهاج.
الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین: کتاب النکاح،باب الکفاءۃ،ج3،ص94،ط:ايچ، ايم، سعید:
 (ولو نكحت بأقل من مهرها فللولي) العصبة (الاعتراض حتى يتم) مهر مثلها (أو يفرق) القاضي بينهما دفعا للعار.
 (قوله: الاعتراض) أفاد أن العقد صحيح. وتقدم أنها لو تزوجت غير كفء. فالمختار للفتوى رواية الحسن أنه لا يصح العقد، ولم أر من ذكر مثل هذه الرواية هنا، ومقتضاه أنه لا خلاف في صحة العقد، ولعل وجهه أنه يمكن الاستدراك هنا بإتمام مهر المثل، بخلاف عدم الكفاءة والله تعالى أعلم.
 (قوله: دفعا للعار) أشار إلى الجواب عن قولهما ليس للولي الاعتراض. لأن ما زاد على عشرة دراهم حقها ومن أسقط حقه لا يعترض عليه ولأبي حنيفة أن الأولياء يفتخرون بغلاء المهور ويتعيرون بنقصانها فأشبه الكفاءة بحر والمتون على قول الإمام."
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 111) دار احياء التراث العربي – بيروت:
" ولا يدفع إلى مدبره ومكاتبه وأم ولده " لفقدان التمليك إذ كسب المملوك لسيده وله حق في كسب مكاتبه فلم يتم التمليك " ولا إلى عبد قد أعتق بعضه " عند أبي حنيفة رحمه الله لأنه بمنزلة المكاتب عنده وقالا يدفع إليه لأنه حر مديون عندهما " ولا يدفع إلى مملوك غني " لأن الملك واقع لمولاه " ولا إلى ولد غني إذا كان صغيرا " لأنه يعد غنيا بيسار أبيه بخلاف ما إذا كان كبيرا فقيرا لأنه لا يعد غنيا بيسار أبيه وإن كانت نفقته عليه وبخلاف امرأة الغني لأنها إن كانت فقيرة لا تعد غنية بيسار زوجها وبقدر النفقة لا تصير موسرة "

  محمد نعمان خالد

   دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

     20/جمادی الاولیٰ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے