021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مبیع ھلا ک ہونے کی صورت میں ضمان کاحکم
82069جائز و ناجائزامور کا بیانبچوں وغیرہ کے نام رکھنے سے متعلق مسائل

سوال

آپ  حضرات سے ایک مسئلہ کے بارے میں دریافت کرنا ہے ،کہ ہمارے پاس ایک فیکٹری کا سامان  تیار ہوتا  ہے ،ہم متعلقہ   فیکٹری کے مالک  کی اجازت سے  مال اسٹاک کرتے ہیں ،مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے  کہ   فیکٹری  میں آگ  لگنے یا کسی دوسری صورت میں  یہ سامان جل  یا ضائع ہوجاتا  ہے تو اس کے بارے میں کیاحکم ہے ؟ایسی  صوت میں سارا نقصان مالک کا ہوگا یا ہمارا ہوگا ؟یا کہ کوئی دوسری صورت ہوگی ؟کیوکہ  یہ مالک کی  مرضی سے اسٹاک کیاجاتا ہے ،اور ہمارے پاس امانت ہوتی ہے ، براہ کرم رہنمائی فرمائیں

سوال  ؛ خام  مال کس کا ہوتا ہے ؟

جواب ؛   ہم  کمپنی والے    سے پیسے  لیکر خام  مال خرید کر لاتے  ہیں  ،پھر   تیار  کرکے  ان کو   دیتے ہیں  ، کچھ دوسروں کو  بھی بیچتے ہیں ، خلاصہ  یہ ہے کہ ان کا کچھ  مال  ہمارے  پا  س  اسٹاک رہتاہے ، ایسےمیں   اگر  آگ لگنے  یا کسی اور وجہ  سے  مال جل  جائے  یا ضائع  ہوجائے   تو  ہم پر ضمان ہے یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر آپ   مال تیار کرکے  کمپنی  کو فروخت کرتے ہیں،   تو  مال  کمپنی   کے حوالے کرنے تک آپ  کے ضمان  میں   رہے  گا ، لہذااس سے پہلے  ھلاک  ہونے کی صورت میں   نقصان آپ  کو برداشت کرنا  ہوگا اگرچہ  مال  آپ نے کمپنی کو  دینے  کے لئے تیار کرکے  رکھا ہے  ۔

اور اگر  آپ کا کام  صرف   مزدوری کا   ہو کہ ان کے  خام مال سے ان کو  سامان تیار کرکے  دیتے  ہیں   اور مزدوری وصول  کرتے ہیں ،توایسے میں   سامان آپ کے پاس امانت  ہے  لیکن اس  کی حفاظت آپ کے ذمے   ہے ، اگر آپ نے  حفاظت میں  غفلت اور کوتاہی سے  کام نہیں  لیا  بلکہ حفاظت کی   پوری کوشش کی   ،لیکن کسی ناگہانی  آفت    سے مال جل   گیا   تو  آپ  پر ضمان نہیں ہوگا ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 560)
 وفي الفتح والدر المنتقى: لو هلك المبيع بفعل البائع أو بفعل المبيع أو بأمر سماوي، بطل البيع ويرجع بالثمن لو مقبوضا
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 242)
 فالمشترك من لا يستحق الأجرة حتى يعمل كالصباغ والقصار"الی قولہ۰۰۰۰
ال: "والمتاع أمانة في يده إن هلك لم يضمن شيئا عند أبي حنيفة رحمه الله وهو قول زفر، ويضمنه عندهما إلا من شيء غالب كالحريق الغالب والعدو المكابر" لهما ما روي عن عمر وعلي رضي الله عنهما أنهما كانا يضمنان الأجير المشترك؛ ولأن الحفظ مستحق عليه إذ لا يمكنه العمل إلا به، فإذا هلك بسبب يمكن الاحتراز عنه كالغصب والسرقة كان التقصير من جهته فيضمنه كالوديعة إذا كانت بأجر، بخلاف ما لا يمكن الاحتراز عنه كالموت حتف أنفه والحريق الغالب وغيره؛ لأنه لا تقصير من جهته. ولأبي حنيفة رحمه الله أن العين أمانة في يده؛ لأن القبض حصل بإذنه، ولهذا لو هلك بسبب لا يمكن التحرز عنه لم يضمنه، ولو كان مضمونا لضمنه كما في المغصوب، والحفظ مستحق عليه تبعا لا مقصودا ولهذا لا يقابله الأجر، بخلاف المودع بأجر؛ لأن الحفظ مستحق عليه مقصودا حتى يقابله الأجر.

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

۳۳ جمادی  الاولی ١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے