021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدت کی نوعیت، مقام اور نفقہ کی تفصیل
82137طلاق کے احکامعدت کا بیان

سوال

زید اور زینب کی آپسی ناچاقی کی وجہ سے زید نے زینب کو بذریعۂ کورٹ طلاق کی دستاویز مع دستخط بھیج دی۔ زینب کے والدین 17 دن سے زینب کے حاملہ ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں، لیکن کوئی رپورٹ پیش نہیں کر رہے اور زینب کو عدت میکے میں گزارنے کا حکم دے رہے ہیں، جبکہ نفقہ کا مطالبہ شوہر سے کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ زینب کونسی عدت گزارے گی اور کہاں گزارے گی؟ عدت کا نفقہ شوہر پر لازم ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

عدت شوہر کے گھر گزارنا ضروری ہے، شوہر اور اس کے گھر والوں پر لازم ہے کہ لڑکی کو ایسا ماحول فراہم کریں جس میں وہ عدت گزار سکے، اس کو ہر قسم کی ذہنی، جسمانی اذیت اور خطرات سے مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ اگر لڑکی شوہر کے گھر عدت گزارتی ہے تو عدت کا نفقہ شوہر پر لازم ہوگا، لیکن اگر وہ بغیر کسی شرعی اور واقعی عذر کے اپنے والدین کے گھر چلی جائے تو اس کا نفقہ اس وقت تک شوہر پر لازم نہیں ہوگا جب تک وہ عدت گزارنے کے لیے واپس شوہر کے گھر نہ آجائے۔  

 جہاں تک عدت کی نوعیت کا تعلق ہے تو اگر لڑکی حاملہ ہے تو اس کی عدت بچے کی پیدائش کے ساتھ مکمل ہوگی اور اگر حاملہ نہیں تو طلاق کے بعد تین کامل حیض آنے کے بعد اس کی عدت مکمل شمار ہوگی۔ عدت کے مکمل دورانیہ کا نفقہ ایک ساتھ دینا شوہر پر لازم نہیں، مرحلہ وار بھی دے سکتا ہے، مثلا ایک، ایک ماہ کا نفقہ دیتا رہے، اس طرح حمل کا ہونا یا نہ ہونا بھی واضح ہوجائے گا، بیوی کو نفقہ ملنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی اور شوہر کو واجب نفقہ سے زیادہ دینے کا خطرہ نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 558-557):
المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى، كان الطلاق رجعيا أو بائنا أو ثلاثا، حاملا كانت المرأة أو لم تكن، كذا في فتاوى قاضي خان……. والمعتدة إذا كانت لا تلزم بيت العدة بل تسكن زمانا وتبرز زمانا لا تستحق النفقة كذا في الظهيرية.
الدر المختار (3/ 575):
( لا ) نفقة لأحد عشر مرتدة……….. و ( خارجة من بيته بغير حق ) وهي الناشزة حتى تعود ولو بعد سفره خلافا للشافعي، والقول لها في عدم النشوز بيمينها……. الخ
رد المحتار (3/ 576):
قوله ( وهي الناشزة ) أي بالمعنى الشرعي، أما في اللغة فهي العاصية على الزوج المبغضة له.  …..  قوله ( والقول لها الخ ) أي حيث لا بينة له، وهذا أخذه في البحر مما في الخلاصة لو قال: هي ناشزة فلا نفقة لها، فإن شهدوا أنه أوفاها المعجل وهي لم تكن في بيته سقطت النفقة، وإن شهدوا أنها ليست في طاعته للجماع لم تقبل لاحتمال كونها في بيته ولا تسقط؛ لأن الزوج يغلب عليها اه.  قلت: ويؤخذ منه أيضا تقييد كون القول لها بما إذا كانت في بيته، وهذا ظاهر لو كان الاختلاف في نشوز في الحال…….. الخ

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

      28/جمادی الاولیٰ/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے