021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بچوں کے نام رقم لکھنے کاحکم
82151ہبہ اور صدقہ کے مسائلکئی لوگوں کو مشترکہ طور پرکوئی چیز ہبہ کرنے کا بیان

سوال

اگر والد صاحب نے اپنے کاروبار میں اپنے بچوں کےلیے پیسے مقرر کیے(مثال کے طور پر ان کے تین بچے ہیں  اور ہر بیٹے کےلیے  2لاکھ روپے مقرر کیے)اوروہ پیسے انہوں نے اپنے سرمایہ کی ڈائری میں لکھ دیے ہیں،تو آیا اب ان پیسوں میں والد تصرف کرسکتاہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

محض لکھنے یا مقرر کرنے سے پیسوں پر بچوں کی ملکیت نہیں آتی ،اگر والد نے باقاعدہ رقم الگ اور مختص کرکے جمع کی ہے تو یہ والد کی طرف سے بچوں کےلیے ہبہ ہے،اگر بچے بالغ ہیں تو اس کے لیے قبضہ ضروری ہے،محض بچوں کے نام الگ کرکے جمع کرنے سے پیسے ان بالغ بچوں کی ملکیت میں نہیں آئیں گے،وہ والد کے ہی رہیں گے۔اگر بچے نابالغ ہیں تو  ان کی طرف سے والد کا قبضہ ہی کافی ہے، لہذا پیسے الگ کرکے مختص کرنے کی صورت میں  یہ پیسے نابالغ بچوں کی ملکیت شمار ہوں گے ۔پھر اس حوالے سے والد کے پاس تصرف کے اختیار کا حکم اوپر گذر چکاہے۔

حوالہ جات
الفتاوی الهندیة (392/4):
"الموهوب له إن كان من أهل القبض فحق القبض إليه، وإن كان الموهوب له صغيرا أو مجنونا فحق القبض إلى وليه، ووليه أبوه أو وصي أبيه ثم جده ثموصي وصيه ثم القاضي ومن نصبه القاضي، سواء كان الصغير في عيال واحد منهم أو لم يكن، كذا في شرح الطحاوي".
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (357/2):
"(والأم كالأب) في أن هبتها لطفلها تتم بالعقد (عند غيبته) أي الأب (غيبة منقطعة) وتفسيرها تقدم في باب الأولياء (أو موته) أي الأب (وعدم وصيه إن كان الطفل في عيالها) ؛ لأن للأم ولاية الحفظ إذا كان في حجرها لكن بشرط غيبة الأب غيبة منقطعة أو موته وعدم وصيه؛ لأنه عند حضور الأب أو الوصي لا يكون للأم ذلك، ولو في حجرها".
الفتاوى الهندية: (391/4):
"وهبة الأب لطفله تتم بالعقد.... وكذا لو وهبته أمه وهو في يدها والأب ميت وليس له وصي، وكذا كل من يعوله، كذا في التبيين وهكذا في الكافي".
قره عين الأخيار لتكملة رد المحتار علي الدر المختار (8/ 234):
قال في المنح ومسألة الابن الصغير يصح فيها الهبة بدون القبض، لان كونه في يده قبض له فلا فرق بين الاظهار: أي الاقرار والتمليك، بخلاف الاجنبي، فإنه يشترط في التمليك القبض دون الاقرار.اهـ.
وإنما يتم في حق الصغير بدون قبض، لان هبة الاب لطفله تتم بقوله: وهبت لطفلي فلان كذا، ويقوم مقام الايجاب والقبول ويكفي في قبضها بقاؤها في يده، لان الاب هو ولي طفله فيقوم إيجابه مقام إيجابه عن نفسه، وقبوله لطفله لانه هو الذي يقبل له وبقاؤها في يده قبض لطفله، إلا إذا كان ما وهبه مشاعا يحتمل القسمة فلا بد من إفرازه وقبضه بعد القسمة لعدم صحة هبة المشاع

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

30/جمادی الاولی1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے