021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجدمیں بغرضِ حفاظت کیمرے لگانے کے اعلان پر امام پر اعتراض کرنا
82101جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

 کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ ہمارے محلے میں مسجد کے امام صاحب نے اعلان کیا کہ ہم مسجد میں کیمرے لگانا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کے چپل چوری نہ ہوں اورٹینکی کا ڈھکن اوراسی طرح کی اورچیزیں حفاظت میں رہیں،امام صاحب نے کہا کہ :کیمرے لگانے سے لوگ خوف زدہ ہونگے اوران میں ڈرپیدا ہوگا لہذا وہ باز آجائینگے ۔حال یہ ہے کہ دروازے ہر وقت کھلے رہتے ہیں اورخادم اپنی ذمہ داری میں بہت لاپرواہی کا مظاہرہ بھی کرتاہے اوراس سے پہلے بھی امام صاحب نے ایسے اعلانات کئے تھے جو غیر ضروری تھے اوربعض تو ایسے تھے کہ اعلان ہوتاکسی ایک کام کےلیے مگر وہ کام نہ ہوتابلکہ دوسرا غیر ضروری کام کرلیتے تھے،باقی مساجد جو اس سے بڑی ہیں انہوں نے کیمرے نہیں لگوائے بلکہ وہ احتیاطی تدابیر سے کام لیتے ہیں،اب اس طرح غیر ضروری اعلانات سے مقتدی اورعوام کا اعتماد ان پر نہیں رہے گا،کل کو کسی ضروری چیز کے لیے اعلان ہوگا تو لوگ تعاون نہیں کرینگے ،بہرحال یہ سب کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ حضرات بیگراؤنڈ معلوم ہوجائے،کیمرے کے حوالے سے جو اعلان ہوا اس پر ایک طالب علم نے ایک رائے پیش کی اورکچھ دلائل دیئے۔

پوچھنایہ ہے کہ یہ دلائل ہیں صحیح یا غلط ؟دلائل مندرجہ ذیل ہیں :

1.  آپ لوگ کیمروں کے خوف سے خوف زدہ کررہے ہو!اوروہ بھی ایسی جگہ میں جوااللہ کا گھر ہے، جہاں صرف اللہ سے لوگ ڈرتے ہیں اوراسی کی عظمت اورخشیت بندے پر طاری ہوتی ہے ،آپ لوگ غیر اللہ سے لوگوں کو خوف زدہ کرہے ہو،گویا لوگوں کو غیر اللہ سے خوف زدہ کرنے کی تلقین جاری کررہے ہوجو علماء اورقاری صاحبان کی شان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اس طرح کی تعلیم اپنے افعال اوراقوال کے ذریعے دیں ،بلکہ نظریہ،سوچ اوراصلاح کو مدنظررکھیں۔

2. کیمرے میں چونکہ اختلاف ہے،لیکن جب دونوں طرف دلائل ہیں اوربرابرہیں تو اس میں جو تقوی کے زیادہ قریب ہو اس پر عمل کرنا چاہیے جبکہ کیمرے کا متبادل موجودہے اوروہ احتیاط اورحفاظت ہے لہذا کیمرے مسجد کے حدود کے اندرنہیں لگانے چاہیے ۔

3. کیمرے لگانے سے لوگ اس طرح اللہ کی عبادت نہیں کرپائیں گے جس طرح کرنا چاہیے کیونکہ مسجد میں بندہ اپنے رب سے رابطہ میں رہتاہے اوروہ اللہ کے سامنے گڑگڑا تاہے اوریہ اس کے اوررب کا معاملہ ہوتاہے، جب اس پر کیمرےکی

نظر لگی ہوگی تو وہ اس طرح مخلصانہ عبادت نہیں کرپائے گا،اور مقید ہوجائے گا۔

4. چوتھی دلیل جوکہ سوال کے اندربھی ہے کہ اس کےلیے علانات کرناغیر ضروری ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ امامت ایک عظیم الشان منصب ہے،جس پر خودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے بعد خلفاء اربعہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی فائز رہے ہیں، اس منصب کے اہل شخص کا احترام مسلمانوں پر لازم ہے، امام پر بلاوجہ طعن و تشنیع کرنا، یا  اس کو تنگ کرناسخت گناہ ہے۔

مسجداورنمازیوں کی چیزوں کی حفاظت کےلیے اگرحفاظتی کیمروں کونصب کرنے کی ضرورت ہوتواس کو نصب کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اوراس مقصد کےلیے مسجد میں اعلان کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ،لہذا اس جائز کام کے اعلان کی وجہ سے بلاوجہ امام صاحب پر اعتراض کرنا اور بدظن ہونا درست عمل نہیں ہے۔

جودلائل سوال میں درج ہیں وہ سب لایعنی ہیں، ان کی وجہ سے امامت جیسے عظیم منصب پر فائز شخصیت کو مجروح کرناجائزنہیں ہے،لہذا جولوگ ایسا کررہے وہ فورا ًاس حرکت سے باز آجائیں اورامام سے معافی مانگیں،یہ ممکن نہیں ہے کہ امام اورمؤذن ہروقت لوگوں کی جوتیوں،ٹینکی کے ڈھکنوں وغیرہ کی حفاظت کرتے رہیں،بنیادی طورپر یہ کام اہلِ محلہ کا ہے  کہ وہ اپنی جوتیوں کی حفاظت کریں اوران کے لیے ریک وغیرہ کا انتظام کریں اورٹینکی کے ڈھکن کےلیے تالےکا انتظام کریں،یا کیمرے لگوائیں، بالعموم اہلِ محلہ اس طرح کی اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرپاتے اورجب امام مجبورااس طرح کے اقدامات کرنے لگتے ہیں تو ان پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں اورساری ذمہ داریاں ان کے سر ڈالدیتے ہیں،جو درست طرزِعمل نہیں ہے،امام کوتکلیف دینےاوران کی  بدعاء اورایذرسانی سےحتی الامکان بچناچاہیے ،حضرت سعدبن ابی وقاض رضی اللہ کی امامت پر جب اہلِ کوفہ میں سے ایک شخص اسامہ ابن قتادہ نے اعتراض کیا اورحضرت سعد نے ان کو بدعادی تو اللہ تعالی نے قبول فرمائی اوروہ شخص بدعاء کے عین مطابق اپنے آخری عمر میں بہت ذلیل  اوررسوا ہوا، اوروہ اس کا اعتراف بھی کرتاپھرتا تھا کہ مجھے سعد کی بددعاء لگی ہے([1]

اگرمقتدیوں میں سے کسی کو واقعةً امام اورخادم سے کوئی معقول شکایت ہو تو  وہ ان حضرات کاموقف بھی ان سے لکھواکربھیج دیں۔

([1] ) طبری :2606،2607

حوالہ جات
وفی مرقاۃ المفاتیح:
"1122  وعن أبي أمامة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «ثلاثة لا تجاوز صلاتهم آذانهم: العبد الآبق حتى يرجع، وامرأة باتت وزوجها عليها ساخط، وإمام قوم وهم له كارهون» ". رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب
(وإمام قوم) أي: الإمامة الكبرى، أو إمامة الصلاة (وهم له) : وفي نسخة: لها، أي الإمامة (كارهون) أي: لمعنى مذموم في الشرع، وإن كرهوا لخلاف ذلك، فالعيب عليهم ولا كراهة، قال ابن الملك: أي كارهون لبدعته أو فسقه أو جهله، أما إذا كان بينه وبينهم كراهة وعداوة بسبب أمر دنيوي، فلا يكون له هذا الحكم. في شرح السنة قيل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنة فاللوم على من كرهه، وقيل: هو إمام الصلاة وليس من أهلها، فيتغلب فإن كان مستحقاً لها فاللوم على من كرهه، قال أحمد: إذا كرهه واحد أو اثنان أو ثلاثة، فله أن يصلي بهم حتى يكرهه أكثر الجماعة".مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح،كتاب الصلاة، باب الإمامة، 3/ 865، الناشر: دار الفكر، بيروت)
وفيه أيضاً:
"(من تقدم) أي للإمامة الصغرى أو الكبرى (قوماً) : وهو في الأصل مصدر قام فوصف به، ثم غلب على الرجال (وهم له كارهون) أي لمذموم شرعي، أما إذا كرهه البعض فالعبرة بالعالم ولو انفرد، وقيل: العبرة بالأكثر، ورجحه ابن حجر، ولعله محمول على أكثر العلماء إذا وجدوا، وإلا فلا عبرة بكثرة الجاهلين، قال تعالى: وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ[الأنعام: 37)" . 
عيَّنَ عمر بن الخطاب سعدَ بن أبي وقاصٍ على الكوفة، فجاء بعضهم يشكونه، وذكروا أموراً كثيرة حتى قالوا: إنه لا يُحسن أن يصلي بنا!...فقام سعد فقال: اللهمَّ إن كان عبدكَ هذا كاذباً، قامَ رياءً وسُمعة فأطِلْ عمره، وأطِلْ فقره، وعرِّضه للفتن.واستجاب اللهُ تعالى دعوة سعد، فعاشَ الرجل كثيراً حتى سقط حاجباه على عينيه، وكان فقيراً يستعطي الناس، ويتعرض للفتيات في الطريق.فلما سُئل عن هذا قال: أنا شيخ مفتون أصابتني دعوة سعد([1])
رد المحتار: (46/1، ط: دار الفکر)
وکرہ غلق باب المسجد إلا لخوف علیٰ متاعہ بہ یفتی (درمختار) قال في البحر: وإنما کرہ؛ لأنہ یشبہ المنع من الصلوٰہ قال تعالیٰ ومن اظلم ممن منع مساجد اللّٰہ أن یذکر فیھا اسمہ.
لامع الدراری،شرح صحیح البخاری للشیخ رشید أحمد الکنکوهي (2/439):
باب أصحاب الحراب في المسجد:………قال ابن بطال: المسجد موضع لأمر جماعۃ المسلمین، فما کان من الأعمال مما یجمع منفعۃ الدین وأھلہ فہو جائز فی المسجد.

(2(طبری :2606،2607

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

27/5/1445

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے