82229 | طلاق کے احکام | خلع اور اس کے احکام |
سوال
اگر خاتون نے خلع لی ہو تو کیا طلاق ہو جاتی ہے؟مولانا طارق جمیل صاحب سے سناہے کہ طلاق کا اختیار شوہر کو ہوتاہےعدالت کو نہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
خلع ایک مالی معاملہ کی طرح ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات میں جانبین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع کے معتبر ہونے کے لیے بھی شوہر اور بیوی دونوں کی رضامندی شرعا ضروری ہوتی ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی راضی نہ ہو تو خلع واقع نہیں ہوتا۔
عدالتی خلع نافذ ہونے کے لیےیہ ضروری ہے کہ بیوی نے خلع شوہر کی اجازت سے لی ہو، شوہر یا اس کا وکیل عدالت میں حاضر ہو اورخلع کو تسلیم کرے یا عدالتی کاغذ پر دستخط کرے اور پھر خلع کی ڈگری جاری ہو۔عصر حاضر میں عام طور پر شوہر کی رضامندی کے بغیر عدالت خلع کی ڈگری جاری کرتا ہے، جس کی وجہ سے شرعا اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اور عورت بدستور شوہر کےنکاح میں رہتی ہے۔
حوالہ جات
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله: وأما ركنه فهو - كما في البدائع: إذا كان بعوض- الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول. (رد المحتار: 3/ 441)
قال العلامة الكاساني رحمه الله: وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول، بخلاف النوع الأول فإنه إذا قال: خالعتك ولم يذكر العوض ونوى الطلاق، فإنه يقع الطلاق عليها، سواء قبلت أو لم تقبل. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع :3/ 145)
قال العلامة السرخسي رحمه الله: فيحتمل الفسخ بالتراضي أيضا، وذلك بالخلع، واعتبر هذه المعاوضة المحتملة للفسخ بالبيع والشراء في جواز فسخها بالتراضي. (المبسوط للسرخسي :6/ 171)
عبدالہادی
دارالافتاء،جامعۃالرشید، کراچی
07جمادی الاخری1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالهادى بن فتح جان | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |