021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پہلی بیوی سےچھپ کر نکاح کرنے کا حکم
82226نکاح کا بیاننکاح کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میں شادی شدہ ہوں، میری شادی کو۱۳ سال ہو چکےہیں اور میرے۴بچےہیں ۔ میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں جس کےلیےمیں نے تقریبا ۴ سال بیوی کو منایااور بلآخر اس نے مجھے اجازت دے دی۔ جب ایک جگہ رشتہ ہونے والا تھا تو میری بیوی کارویہ بدلنے لگااور عجیب عجیب باتیں کرنا شروع کر دی کہ سب ختم ہو جائے گا، سب برباد ہو جائےگا اور رونادھونا شروع کردیا۔ پھرکھانا نہ کھانا اور اس قسم کی کافی حرکتیں کرتی رہی۔  آخر ان حرکتوں اور باتوں سے تنگ آ کر میں نے وہ رشتہ آگے نہیں بڑھایا اور دوسری شادی نہیں کی، تب سے میری بیوی ٹھیک ہے۔  میں اب بھی دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں،  لیکن اب ارادہ یہ ہے کہ بیوی سے چھپ کر کروں گا۔ چھپ کر کرنے میں یہ معاملہ ہے کہ میں کوئی دن یا رات دوسری بیوی کے ساتھ نہیں رہ سکوں گا اور انصاف پر قائم نہیں رہ پاؤں گا۔ جب کہ پہلےجب میں بیوی کی اجازت سے کر رہا تھا، تب میں دونوں بیویوں کے بیچ میں راتیں بانٹ رہا تھا اور بہت حد تک انصاف پر قائم تھا۔  

آج کل کے حالات میں کافی خواتين مالی وجسمانی اور معاشرتی ضروریات کی وجہ سے اس بات پر بھی آمادہ ہیں کہ بس کوئی ان سے نکاح کر لے اور ان کو عزت سے رکھ سکے اور اس کے بدلے میرے کہےبغیر ہی وہ اپنے سارےحقوق معاف کرنے کی پیشکش خود کرتی ہیں۔  اس کے بدلے ان کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ان کو رہنے کی جگہ اور ان کا اور ان کے بچے کا پورا خرچہ صحيح طریقے سے اٹھایا جائے، جس کے لیے میں تیار ہوں۔  یہاں پر خاتون کے گھر والوں کے علم میں یہ بات ہوگی کہ لڑکی کا نکاح ہو چکا ہے، لیکن یہ بات صرف میرے گھروالوں کو نہیں معلوم (اپنی بیوی کی وجہ سے) ۔

رہنمائی فرمائیں کہ یہ چھپ کے نکاح کرنا کیساہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دوسری شادی کے لیے  پہلی بیوی سے اجازت لینا  شرعا ضروری نہیں، بلکہ اجازت لینے پر اگر پہلی بیوی منع کردے تب بھی دوسری شادی کر سکتا ہے، بشرطیکہ دونوں  بیویوں کے حقوق کی ادائیگی کی    پوری  صلاحیت رکھتا ہواور ان کے درمیان عدل و انصاف کرسکتا ہو۔   البتہ خانگی مسائل سے بچنے کے لیے پہلی بیوی کو اعتماد میں لینا  بہتر طرز عمل ہے ۔ نیز اس حوالے سے ملکی قوانین کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔

مذکورہ صورت میں آپ نکاح کرسکتے ہیں۔البتہ اگر دوسری بیوی نے بعد میں اپنے حقوق کا مطالبہ کیاتو آپ پر ان کی ادائیگی لازم ہوگی۔ بہتر یہ ہے کہ پہلی بیوی کے علم میں ہو تاکہ آئندہ چل کر ذہنی سکون رہے اور دونوں کے حقوق ادا کرنے میں سہولت رہے۔

حوالہ جات
قال الله تبارك وتعالى:فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنْ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا [النساء: 3] 
روى الإمام أبوداود رحمه الله عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "‌من ‌كانت ‌له ‌امرأتان فمال إلى إحداهما، جاء يوم القيامة وشقه مائل". (سنن أبي داود: 2/ 242)
قال العلامة الحصكفي رحمه الله:(يجب) وظاهر الآية أنه فرض.نهر (أن يعدل) أي أن لا يجوز (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول)والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب. (الدر المختار مع رد المحتار: 3/ 201)
في الفتاوى الهندية: وإذا كانت له امرأة، وأراد أن يتزوج عليها أخرى، وخاف أن لا يعدل بينهما لا يسعه ذلك، وإن كان لا يخاف وسعه ذلك. (الفتاوى الهندية:1/ 341)

عبدالہادی

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

07جمادی الاخری1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالهادى بن فتح جان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے