021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قطری ریال قرض لے کر روپیہ واپس کرنے کا حکم
82277خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

میں نے ایک شخص کو بطورِ قرض حسنہ سولہ ہزار قطری ریال پاکستان بھیجے تھے،ہمارا معاملہ قطری ریال میں ہوا تھا، اس نے مجھ سے کہا کہ میں دبئی سے واپس قطر بھیج دوں گا، کیونکہ وہ بندہ قطر میں ملازم تھا اور اگر رقم کا انتظام نہ کر سکا تو میں اپنا ٹینکر بیچ کر رقم قطر بھجوا دوں گا، اب اس واقعہ کو بارہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے، شروع کے سات آٹھ سال تک وہ یہی کہتا رہا کہ آج کل ادا کر دوں گا، اسی طرح ٹالتا رہا، اب جب کرنسی کی قیمت میں کافی فرق آگیا تو کہتا ہے کہ میں پاکستانی روپیہ میں واپس کروں گا، جب اس نے رقم لی تھی تو اس وقت چار  لاکھ روپیہ بنا تھا، سوال یہ ہے کہ اس کو کو ن سی  کرنسی میں قرض واپس کرنا ہو گا؟ جبکہ وعدہ قطر میں رقم واپس بھیجنے کا ہوا تھا،کیونکہ میں نے بھی حقیقت میں قطری ریال دیے تھے اورمجھ سمیت میرا پورا خاندان قطر میں ہے تو پاکستانی روپیہ واپس کرنے کا جواز نہیں بنتا، نیز میں نے یہ سولہ ہزار ریال کسی سے قرض لیے تھے اور ان کو بھی ریال کی شکل مں ہی ادا کرنے ہیں، لہذا اس کا شرعی حکم صادر فرمائیں۔

وضاحت:

سائل نے فون پر بتایا کہ جب مجھ سے قرض مانگا تو میں نے اس سے کہا کہ میرے پاس ریال نہیں ہیں، میں آپ کے لیے کسی سے قرض لے کر دے دیا ہوں، اس نے کہا ٹھیک ہے، میں نے سولہ ہزار ریال لیے اور ہنڈی والے کے ذریعہ پاکستان بھیج دیے،پاکستان میں اس کو روپے موصول ہوئے،کیونکہ پاکستان میں ریال نہیں بھیجا جا سکتا،  پھر میں نے اس سے کہا کہ دیکھیں میں نے کسی سے سولہ ہزار ریال قرض لے کر دیا ہے، مجھے یہ ریال وقت پر ادا کر دینا، مجھے شرمندہ نہ کرنا، اس نے کہا ٹھیک ہے، اگر مجھ سے نہ ہو سکے تو میں دبئی میں اپنا ٹینکر بیچ کر وہاں سے بھیج دوں گا، یہ واضح دلیل تھی کہ واپسی ریال میں ہو گی، کیونکہ دبئی میں پاکستانی روپے نہیں چلتے، باقی میں نے ریال پاکستانی رپوں میں اس لیے تبدیل کیے تھے کہ بیرون ممالک سے پاکستان میں ریال نہیں بھیجے جا سکتے، بلکہ پاکستانی کرنسی میں ہی بھیجنا ضروری ہے، خواہ بھیجنے والا درہم بھیجےیا ریال ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سعودیہ میں کام کرنے والے حضرات سے معلوم ہوا کہ بیرون ممالک سے پاکستان میں دراہم یا ریال نہیں بھیجے جا سکتے، بلکہ دوسرسے ملک سے دراہم بھیجیں یا ریال، بہر صورت پاکستان میں روپے ہی ملتے ہیں، اسی طرح اگر کسی وجہ سے یہ روپے اسی ملک واپس بھیجنا چاہیں تو واپس وہی کرنسی (ریال وغیرہ) دی جاتی ہے جو دوسرے ملک میں جمع کروائی گئی ہو۔اور صورتِ مسئولہ میں قرض لینے والا چونکہ پاکستان میں تھا اس لیے  اس کوریال پاکستانی روپوں کی شکل میں موصول ہوئے، لیکن اگر یہ شخص قطر میں ہوتا تو آپ اس کو روپے کی بجائے ریال ہی دیتے۔ اس لیے ہنڈی یا بینک والے کا ریال لے کر پاکستان میں روپیہ دینا ایک انتظامی معاملہ تھا، اس سے شرعی حکم پر اثر نہیں پڑے گا۔

 لہذا مذکورہ صورت میں چونکہ یہ معاملہ قطری ریال کی صورت میں طے ہوا تھا، جس کا ایک قرینہ یہ ہے کہ قرض لینے والے نے کہا تھا کہ میں دبئی سے ریال بھیجوں گا، جب کہ دبئی سےپاکستانی روپےقطر بھیجنے کا کوئی معنی نہیں، کیونکہ قطر اور دبئی دونوں جگہ روپیہ استعمال نہیں ہوتا، اس لیے شرعی اعتبار سے اب قرض لینے والے کا سولہ ہزار ریال ہی واپس کرنا ضروری ہے، اس کا یہ بہانہ بنانا ہرگز جائز نہیں کہ میں نے روپے وصول کیے ہیں اس لیے واپسی بھی روپوں کی شکل میں ہی کروں گا، کیونکہ  روپے وصول کرنا پاکستان میں ہونے کی وجہ سے اس کی اپنی مجبوری تھی، قرض دینے والے نے حقیقت میں ریال ہی بطورِ قرض دیے ہیں، لہذا اب واپسی بھی ریال کی شکل میں ہی کرنا ضروری ہے، کیونکہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ "الدیون تقضی بأمثالھا" یعنی قرض جس جنس اور مقدار میں لیا گیا ہو اسی جنس اور مقدار میں واپس کرنا ضروری ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 789) دار الفكر-بيروت:
مطلب في قولهم الديون تقضى بأمثالها:
قلت: والجواب الواضح أن يقال قد قالوا إن الديون تقضى بأمثالها أي إذا دفع الدين إلى دائنه ثبت للمديون بذمة دائنه مثل ما للدائن بذمة المديون فيلتقيان قصاصا لعدم الفائدة في المطالبة، ولذا لو أبرأه الدائن براءة إسقاط يرجع عليه المديون كما مر، وكذا إذااشترى الدائن شيئا من المديون بمثل دينه التقيا قصاصا أما إذا اشتراه بما في ذمة المديون مع الدين ينبغي أن لا يثبت للمديون بذمة الدائن شيء لأن الثمن هنا معين وهو الدين فلا يمكن أن يجعل شيئا غيره فتبرأ ذمة المديون ضرورة بمنزلة ما لو أبرأه من الدين وبه يظهر الفرق بين قبض الدين وبين الشراء به فتدبر.
بحوث في قضايا فقهية معاصرة(ج:1ص:187) مكتبة دارالعلوم كراتشي:
لما سأل بكر بن عبدالله المزني رحمه الله، مسروق العجلي، وعبدالله بن عمر رضي الله عنهما عن كري لهما له، عليهما دراهم وليس معهما إلا دنانير، أجاب ابن عمر أطوه بسعر السوق فتبين أن القيمة يعتبر يوم الاأداء لا يوم الثبوت في الذمة.

  محمد نعمان خالد

    دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

     12/جمادی الاخری 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے