021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دودھ سیرکےحساب سےبیچنا،جبکہ حکومت کی طرف سےکلوکےحساب سےبیچنےکی ہدایات ہوں
82276جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتےہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ میری دودھ کی دکان ہے، ہمیں ڈیری فارم  سےدودھ سیرکےحساب سےملتاہے،جبکہ حکومت کی طرف سےہم کسٹمرزکوکلوکےلحاظ سےخریدوفروخت کرنےکےپابند ہیں،چونکہ سیر کی مقدار کلو سے کچھ کم ہوتی ہے ،لیکن اب تک فی کلو میں نفع زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمیں کوئی حرج پیش نہیں آرہا تھا، لیکن اب جب حکومت کی جانب سے ایک کلو دودھ کی قیمت دو سو روپے طے کر دی گئی ہے ،نفع کی شرح بہت کم ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے ہمیں شدید حرج کا سامنا ہے۔

 عام طور پر دودھ والے اس حرج سے بچنے کے لیے دو طریقوں میں سے کوئی ایک طریقہ اختیار کرتے ہیں، یا تو پیمانہ چھوٹا کر دیتے ہیں یا پھر  ملاوٹ، یہ دونوں طریقے درست معلوم نہیں ہوتے ۔

 اب سوال یہ ہے کہ ہمارے لیے کوئی ایسی قابل عمل صورت ہے کہ جس پر عمل کر کے ہم گناہ گار بھی نہ ہوں اورنقصان کااندیشہ بھی نہ رہے۔

واضح رہے کہ ہم دکان پر کسٹمرز کی آگاہی کے لیے اس طرح کا اعلان یا نوٹس بھی نہیں لگا سکتے کہ ہم دودھ سیر کے حساب سے فروخت کر رہے ہیں، کیونکہ سرکاری اداروں کی جانب سے مداخلت ہوتی ہے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس صورت حال کاحل یہ ہےکہ گورنمنٹ کےاداروں سےبات کرکےاس معاملےکومستقل حل کیاجائےمثلاڈیری فارم سےبھی سیرکےحساب سےلیاجائےاورسیرہی کےحساب سےبیچاجائے،یاپھرڈیری فارم سےہی کلو(لیٹر)کےحساب سےلیاجائےاورآگےبھی کلو(لیٹر)کےحساب سےبیچاجائے،تاکہ نقصان بھی نہ ہواوردھوکہ دہی،غلط بیانی اورناپ تول میں کمی جیسےگناہوں کاارتکاب بھی نہ ہو،اس کےعلاوہ جو طریقےاختیارکیےجائیں گے،اس میں ملاوٹ،غلط بیانی یاحکومتی قانون کی خلاف ورزی لازم آئےگی ،اوران تینوں کی اجازت نہیں ہے،البتہ قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں نفع کوناجائزنہیں کہاجائےگا،اگرچہ خلاف ورزی کایہ عمل ناجائزہوگا،اوراس سےاپنی جگہ اجتناب کرنا لازم ہے۔

حوالہ جات
سورۃ المطففین :وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ (1) الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ (2) وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ (3)
"تفسير ابن كثير"8 / 346:فالمراد بالتطفيف هاهنا: البخس في المكيال والميزان، إما بالازدياد إن اقتضى من الناس، وإما بالنقصان إن قضاهم . ولهذا فسر تعالى المطففين الذين وعدهم بالخسار والهلاك وهو الويل، بقوله: { الذين إذا اكتالوا على الناس } أي: من الناس { يستوفون } أي: يأخذون حقهم بالوافي والزائد، { وإذا كالوهم أو وزنوهم يخسرون } أي: ينقصون۔
"سنن ابن ماجه" 2 / 749:عن أبي هريرة قال مر رسول الله صلى الله عليه و سلم برجل يبيع طعاما فأدخل يده فيه فإذا هو مغشوش فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ليس منا من غشنا ( الغش ضد النصح من الغش وهو المشروب الكدر أي ليس على خلقنا وسنتنا ) صحيح۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

11/جمادی الثانیہ    1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے