021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک دن ناغہ کرنے پر تین دن کی تنخواہ کی کٹوتی کا حکم
82484اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے جدید مسائل

سوال

کیایہ پالیسی بناناجائز ہے کہ اگر ہفتہ اور پیر کو چھٹی کی ہو اگرچہ کسی عذر سے کیوں نہ ہوتوایسی صورت میں اتوار کی چھٹی بھی شمار کی جائے گی اور تین دن چھٹی شمار کرتے ہوئے تین دن کی تنخواہ کاٹی جائے گی اگر چہ اتوار کو عام حالات میں چھٹی ہوتی ہو؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پاکستان کےلیبرز لاء کی روشنی میں اگر کوئی شخص دن میں 8/9گھنٹے کام کرتا ہے تو وہ ہفتہ میں ایک دن چھٹی کا اہل ہے(ایک دن چھٹی لازمی ہوگی) جیسا کہ پاکستان فیکٹریزایکٹ 1934، خیبرُپختونخوا فیکٹریزایکٹ 2013،سندھ فیکٹریز ایکٹ 2015،شاپس اینڈ اینڈ اسٹبلشمنٹس  آرڈیننس اور ان سے متعلق پنجاب،خیبر پختونخوا، بلوچستان  کے ایکٹس نیز مختلف اسٹینڈنگ آرڈرز میں اس کوبیان کیا گیا ہے۔

 چونکہ پاکستان کے کاروباری اداروں میں عموما اتوار کا دن چھٹی کے لیے متعین ہوتا ہےاور ہفتہ میں  اتوار کے علاوہ کسی اور دن چھٹی نہیں دی جاتی ،اس لیے اتوار کو چھٹی کسی بھی مزدور (تنخواہ دار شخص )  کاقانونی حق ہے اور ادارےپر لازم ہےکہ تنخواہ دار شخص کو  ہفتہ وارچھٹی کےدن(اتوار) کی تنخواہ د  یں ۔اس لیےکسی  بھی ایسے ادارے کےلیےجس میں ہفتہ واررخصت اتوار کے دن ہو ایسی پالیسی بنانا جائز نہیں  کہ اگر ہفتہ اور پیر کو ناغہ  کسی عذر کی بناء پر ہی کیوں نہ کیا ہو  تو ایسی صورت میں اتوار کے دن کوقا نونی سرکاری رخصت  ہوتے ہوئے بھی اس کو ناغہ  شمار کیا جائے گا اور تین دن کی تنخواہ کاٹی جائے گی ۔

نوٹ :کمپنی ملازمین کی شرعی  حیثیت چونکہ اجیر خاص کی ہوتی ہے،اس لیے   ملازمین کے تاخیر سے آنے یا غیر حاضر رہنے پر کمپنی انتظامیہ کو صرف اتنی ہی اجرت کی کٹوتی  کااختیار ہے جس قدرانہوں  نے  کوتاہی کی ہو  ،کوتاہی سے زیادہ اجرت کی کٹوتی مالی جرمانہ اور ظلم ہے اس لیے جائز نہیں ۔ملازمین کو وقت کا پابند بنانے کے لیےمالی جرمانے کی بجائے  دیگرممکنہ جائز تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں  ۔ مثلا متعین وقت کے بعد پہنچنے کی صورت میں ناغہ  شمار کرتے ہوئےواپس بھیج دینا  وغیرہ۔

حوالہ جات
وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به -إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة ؛إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.وفي المجتبى: لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال. ( رد المحتار ط الحلبي:4/ 61)
قال الحصکفی رحمہ اللہ :وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.
قال ابن عابدین رحمہ اللہ: (قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا :له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى... (قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه، وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة.
(رد المحتار ط الحلبي:6/ 70)
فَكَانَتِ الْعُقُوبَاتُ جَارِيَةً فِيمَا ذُكِرَ فِي هَذِهِ الْآثَارِ عَلَى مَا ذُكِرَ فِيهَا حَتَّى نُسِخَ ذَلِكَ بِتَحْرِيمِ الرِّبَا ، فَعَادَ الْأَمْرُ إِلَى أَنْ لَا يُؤْخَذَ مِمَّنْ أَخَذَ شَيْئًا إِلَّا مِثْلُ مَا أَخَذَ، وَإِنَّ الْعُقُوبَاتِ لَا تَجِبُ فِي الْأَمْوَالِ بِانْتِهَاكِ الْحُرُمَاتِ الَّتِي هِيَ غَيْرُ أَمْوَالٍ. فَحَدِيثُ سَلَمَةَ - عِنْدَنَا - كَانَ فِي الْوَقْتِ الْأَوَّلِ، فَكَانَ الْحُكْمُ عَلَى مَنْ زَنَى بِجَارِيَةِ امْرَأَتِهِ مُسْتَكْرِهًا لَهَا ، عَلَيْهِ أَنْ تَعْتِقَ عُقُوبَةً لَهُ فِي فِعْلِهِ ، وَيَغْرَمَ مِثْلَهَا لِامْرَأَتِهِ. وَإِنْ كَانَتْ طَاوَعَتْهُ أَلْزَمَهَا جَارِيَةً زَانِيَةً وَأَلْزَمَهُ مَكَانَهَا جَارِيَةً طَاهِرَةً وَلَمْ تَعْتِقْ هِيَ بِطَوَاعِيَتِهَا إِيَّاهُ. وَفَرَّقَ فِي ذَلِكَ ، بَيْنَمَا إِذَا كَانَتْ مُطَاوِعَةً لَهُ ، وَبَيْنَمَا إِذَا كَانَتْ مُسْتَكْرَهَةً. ثُمَّ نُسِخَ ذَلِكَ فَرُدَّتِ الْأُمُورُ إِلَى أَنْ لَا يُعَاقَبَ أَحَدٌ بِانْتِهَاكِ حُرْمَةٍ لَمْ يَأْخُذْ فِيهَا مَالًا بِأَنْ يَغْرَمَ مَالًا ، وَوَجَبَتْ عَلَيْهِ الْعُقُوبَةُ الَّتِي أَوْجَبَ اللهُ عَلَى سَائِرِ الزُّنَاةِ.(شرح معاني الآثار:3/ 146)
جیساکہ پاکستان فیکٹریز ایکٹ میں ہے:
CHAPTER- IV:- Restrictions  on Working Hours of  Adults:
34 -Weekly hours. -No adult worker shall be allowed or required to work in a factory for more than forty-eight hours in any week, or, where the factory is a seasonal one, for more than fifty hours in any week:
Provided that an adult worker in a factory engaged in work which for technical reasons must be continuous throughout the day may work for fifty-six hours in any week.
جیساکہ ویسٹ پاکستان شاپس اینڈاسٹیبلشمنٹس آرڈیننس،1969میں ہے:
8. Daily, weekly hours and over-time. - Save as otherwise expressly provided in this Ordinance, no adult employee shall be required or permitted to work in any establishment in excess of nine hours a day and forty-eight hours a week, and no young person in excess of seven hours a day and forty-two hours a week:
 Provided that in any day or in any week, in which there occurs stock-taking, making up of   accounts, settlement or such other business operation, and during such other period, as may be prescribed, an adult employee of an establishment may be required or permitted to work over-time in such establishment for more than nine hours in such day and for more than forty-eight hours in such week, and a young person for more than seven hours in such day and for more  than forty-two hours in such week, but so that the total number of hours so worked by an adult does not exceed six hundred and twenty-four] hours and by a young person any one year. [four hundred and sixty-eight] hours in any one year.

رفیع اللہ        

دار الافتاءجامعۃ الرشید کراچی

 17 جمادی الاخری1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

رفیع اللہ غزنوی بن عبدالبصیر

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے