021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کاغذی کاروائی کیے بغیر زمین فروخت کرنے کا حکم
81707/63خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میرے چچا جو میرے ساتھ بیس سال رہےاور ان کی بیوی ان سے پہلے فوت ہو گئی تھی اور ان کی کوئی اولاد نہیں تھی اور ان کی زمین دس ہزار فٹ تھی اور وہ انہوں نے اپنی زندگی میں بیچ دی تھی اور  جس کو بیچی تھی  اس کو کوئی لکھت وغیرہ نہیں دی۔اس دوران  ان کا انتقال ہو گیا اور پیچھے زمین کے باقی پیسے پچاس ہزار ہیں اور یہ زمین ابھی تک چچا کے  نام ہے ۔اب ان کا ایک سگا بھائی ،تین سوتیلے بھائی اور دو سوتیلی بہنیں زندہ ہیں ۔اب کیا شریعت کی رو سے  کون اس زمین کا مالک ہے ؟ نیزاس زمین کی فروختگی کے وقت تین گواہ موجود تھے ۔جن میں سے ایک میں ،دوسرا میرا بیٹا اور تیسرا پڑوسی ہے ۔ جس کو زمین بیچی ہے وہ مالک ہے یا چچا کے بھائی بہنیں ؟جلد سے جلد رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شرعی اعتبار سے زمین کی ملکیت بیچنے والے سے خریدار کی طرف منتقل ہونے کے لیے  بیع نامہ لکھنا اور خریدار کے نام  رجسٹری کروانا ضروری نہیں ،بلکہ زبانی ایجاب اور قبول سے خریداری کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے ،لہذا اگر واقعتا آپ کے چچا نے وہ زمین بیچ دی تھی تو وہ زمین اب اس شخص کی ملکیت ہے جس نے وہ خریدی تھی ۔آپ کے چچا کے وارثین کو اگر یہ حقیقت  معلوم  ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ زمین کی رجسٹری  اس کے مالک کی طرف منتقل کریں۔اور خریدار کے لیے ضروری  ہے کہ وہ باقی مانندہ رقم ورثہ کے حوالے کر دے جو کہ ان میں شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہو گی۔البتہ اگر ورثہ اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے تو یہ گواہوں سے اسے عدالت میں یا کسی ثالث کے پاس ثابت کرنا ہو گا۔

حوالہ جات
قال جمع من المؤلفين رحمهم الله تعالى:و أما ركنه فنوعان:أحدهما الإيجاب و القبول و الثاني التعاطي وهو الأخذ و الإعطاء ،كذا في محيط السرخسي.(الفتاوى الهندية: ٣/٢)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى: قوله: (وحكمه ثبوت الملك) أي في البدلين لكل منهما في بدل، وهذا حكمه الأصلي، والتابع وجوب تسليم المبيع والثمن.(رد المحتار:٤/٥٠٦)
قال العلامة شمس الأئمة السرخسي: وانعقاد هذا البيع بلفظين هما عبارة عن الماضي وهو بقوله :بعت واشتريت في محلين كل واحد منهما متقوم على طريق الاكتساب).المبسوط للسرخسي:١٢/١٠٩)
قال العلامة علاء الدين أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاساني: وأماركن البيع: فهو مبادلة شيء مرغوب بشيء مرغوب، وذلك قد يكون بالقول، وقد يكون بالفعل.(بدائع  الصنائع في ترتيب الشرائع:٥/١٣٣)
قال العلامة زين الدين ابن نجيم رحمه الله تعالى: وأما شرط العقد فموافقة القبول للإيجاب بأن يقبل المشتري ما أوجبه البائع بما أوجبه.(البحر الرائق :٥/٢٧٩)

احسن ظفر قريشي

دار الافتاء،جامعۃ الرشید،کراچی

19 جمادی الآخرۃ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسن ظفر قریشی بن ظفر محمود قریشی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے