021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں تقسیم کردہ جائیداد میں اختلاف
82331تقسیم جائیداد کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میں سید مظفر حسین شاہ کے چاربیٹے اورپانچ بیٹیاںہیں اور میری ملکیت میں چند مکان ہیں اور میں اپنی زندگی میں ان بچوں کو پریشانی میں دیکھ رہا تھاکہ وہ کرائے کے مکانوں میں گذر بسر کر رہے تھے، اس پریشانی  کو مدِ نظر رکھتے ہوئےمیں نے تمام بچوں کو ایک ایک حصہ غیر متعین طورپرعارضی طورپردیا کہ فی الحال رہتے رہو اور میرےمرنے کے بعدچونکہ یہ آپ لوگوں میں ویسے ہی تقسیم ہونا ہے لہذا ابھی سے آپ رہ سکتےہو،  ان میں سے بعض بچیوں کے شوہروں سے میں نے ایک عرصہ تک باقاعدہ کرائے کی وصولی بھی کی اور بعض اوقات معاف بھی کیا  اور وہ  اپنی رہائش کی جگہیں جو میں نے ان کو دی تھی وہ تبدیل بھی کرتےرہتے  تھے، لیکن اب کچھ عرصے سے کچھ بچے ایک ہی جگہ پر جم کر بیٹھے گئے ہیں، لیکن میرے ایک بچے مزمل حسین کا  دو سال قبل انتقال ہو گیا ہے ،جس جگہ وہ  رہ رہا تھا وہاں اس نے مجھ سے قرض لیکرتعمیرات کی تھی جس کی کچھ حصے کی میں نے مخالفت کی تھی اورکچھ کی جازت دی تھی ،اوراجازت بھی اس طور پردی تھی کہ وہ بے روزگارتھاتو سوچاکہ چلوکرایہ پر دیدے گا کچھ آمدنی ہوگی۔ اس کے کاغذات بھی میرے پاس موجودہیں ،ان  کو حوالہ نہیں کئے،جس بیٹے کا انتقال ہوا   اسکی بیوی  کادعوی  ہے کہ یہ مکان میرے شوہر کا ہے، لہذا  اس کی حقدار میں ہوں،  نہ کہ آپ  یعنی سسر، اور اس میں کسی اور کا کوئی حصہ نہیں سوائے میرے اورمیرے بچوں کے،اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ

         ١ ۔آیا میرایہ عارضی تقسیم کرنا  ان کو ہبہ کرناکہلائے گایانہیں؟

         ۲۔میرے بہوکا مذکورہ دعوی جس پر اس نے آپ کے دارالافتاء سے منسلکہ فتوی بھی حاصل کیاہے درست ہے یانہیں؟اگردرست ہے تو میرے مرحوم بیٹے کی وراثت کی شرعی تقسیم بیان فرمادیں  اوراگرمذکورہ دعوی درست نہیں تو میرے لیے شرعا کیا حکم ہے کہ میں اس  بیوہ اوربچوں کو اپنی صوابدید پر حصہ دویا وصیت کرویا پھر شرعاً آٹھواں حصہ دو؟

     ۳۔اگرمیری عارضی تقسیم سے میرے مرحوم بیٹے کی ملکیت کا ثبوت ہوتاہے توپھر میں اپنے بیٹے کی ملکیت کی وراثت کا حقدارہوں اورمیری اہلیہ بھی ، تواس صورت میں ہم اپنا حق کیسے وصول کریں گے؟کیونکہ مکان اورجائیداد کم ہے اورتقسیم میں زمین کم حصے میں آئے گی اورقیمت حصے کی بیٹے کی بیوی ادا کرنہیں سکتی تو کیا میں مکان بیچ کر اپنا اوراپنے اہلیہ کا حصہ وصول کرسکتاہوں؟

مرحوم بیٹے کےورثہ  درج ذیل ہیں :

والد (یعنی میں) ،والدہ (  یعنی میری اہلیہ) ،بیوہ،تین بیٹے،اورچاربیٹیاں۔آپ کے دارالافتاء کا فتوی جس کی بنیاد پر بیوہ کا دعوی  ہے  منسلک ہے ،اس کی وضاحت فرمائیں اورشرعی حصص کی تقسیم بیان فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  متعلقہ جگہ پر آپ کے مرحوم بیٹےنےباجازت یا بلااجازت جو تعمیرات کی ہیں وہ تو ان کی ملک ہیں ، اگرچہ وہ تعمیرات انہوں نے آپ سے پیسےقرض لیکرکیوں نہ کئے ہوں ، اب یہ تعمیرات ان کی وفات کی وجہ سے ان کے ترکہ میں شامل ہونگے، البتہ جوقرض انہوں نے آپ سے لیا تھا اگر اس کی ادائیگی زندگی میں انہوں نے نہیں کی تھی   اورآپ نے اب تک معاف بھی نہیں کیا ہے تو اب آپ وہ  ان کے ترکہ سےوصول کرسکتے ہیں۔

تعمیرات کے علاوہ جو حصہ آپ نے دیا ہے اس میں آپ کا اورآپ کی بہوکا اختلاف ہے، ان کا دعوی ہبہ اورقبضے کا ہے جبکہ آپ کادعوی عارضی تقسیم کاہے۔

مفتی غیب نہیں جانتاوہ تو سوال کے مطابق جواب دیتاہے،چونکہ پچھلے فتوی میں زندگی میں جائیدادتقسیم کرنے اوراس پر تصرف بھی دینے کی بات کی گئی تھی اس لیے اس فتوی میں مذکورحکم لکھاگیاتھا،لیکن اب آپ یہ فرما رہے ہیں کہ  یہ تقسیم عارضی تھی۔

یہ ٹھیک ہے کہ عارضی تقسیم سے ہبہ متحقق نہیں ہوتا ،مگریہاں تو ہبہ پردیگرقرائن بھی موجود ہیں اورآپ کا قول بھی موجود ہے اوراس پر ان کے پاس گواہ بھی موجود ہیں اور لکھی ہوئی وہ تحریربھی موجود ہے(اگربرآمدہوجائے)کہ جو آپ کےبہوکے بقول آپ کی بیٹی اور داماد کے پاس  محفوظ ہے،تو ان قرائن کے پیشِ نظر یہ تقسیم عارضی معلوم نہیں ہوتی، تاہم اگرپھربھی آپ کا اصرارہےکہ عارضی تھی تو اپنے اس قول پر آپ کو گواہ پیش کرنا ہونگے، ورنہ تو یہ مکان اب آپ ان یتیم  بچوں سے واپس نہیں لے سکیں گے۔

آپ کوچاہیے کہ بیٹے کے ترکہ میں جوشرعی حصہ آپ اورآپ کی بیوی کا بنتاہے وہ بھی آپ لوگ ان یتیم بچوں کے لیےچھوڑدیں اوروصول نہ کریں،اس میں بڑٕی بھلائی ہے۔

اب آپ کے سوالوں کے مختصرجوابات درج ذیل ہیں:

١١۔عارضی تقسیم اگرچہ ہبہ نہیں ،مگریہاں ہبہ کے دیگرقرائن موجودہیں ،لہذا  اگرآپ اس کا انکارکریں گے تو آپ کواپنی بات پر گواہ پیش کرناہونگے۔

۲۔ قرائن سے ان کے دعوی کا درست ہونا معلوم ہوتاہے۔آپ کو چاہیے کہ میراث میں اپنا حصہ اوربیوی کا حصہ ان کی اجازت سےان یتیم بچوں اوربیوہ کےلیے چھوڑدیں،میراث کی تقسیم آخرمیں دیکھیں۔

۳۔بہتریہ ہےکہ آپ اورآپ کی بیوی ان یتیم بچوں اوربیوہ کےلیے اپناحصہ چھوڑدیں،یاقسط وارکرایہ سے تھوڑا تھوڑا کرکے وصول کرنے کی ترتیب بنائیں اورمکان نہ بیچیں ورنہ یہ یتیم بچے کہاں جائیں گے،یتیم کی کفالت اورخیال رکھنے کے بڑے فضائل احادیث میں  وارد ہوئے ہیں، ان سے اپنے کو محروم  نہ کریں۔

آپ کےمرحوم بیٹے کی وراثت کی شرعی تقسیم اس طرح ہوگی کہ حقوقِ  متعلقہ بالترکہ(کفن دفن کے اخراجات،قرض اورثلت تک وصیت) کی ادائیگی کے بعدباقی ماندہ کل منقولہ،غیرمنقولہ  مال میں سے مرحوم کی بیوہ کا حصہ %12.5، ہربیٹے کاحصہ%10.834 ہربیٹی کاحصہ%5.416 ،والدہ کا حصہ(اگروہ لیناچاہیے) %16.667 اوروالد کاحصہ (اگر وہ لینا چاہے) %16.667.

حوالہ جات
وفی العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 81)
(سئل) في رجل بنى بماله لنفسه قصرا في دار أبيه بإذنه ثم مات أبوه عنه وعن ورثة غيره فهل يكون القصر لبانيه ويكون كالمستعير؟(الجواب) : نعم كما صرح بذلك في حاشية الأشباه من الوقف عند قوله كل من بنى في أرض غيره بأمره فهو لمالكها إلخ ومسألة العمارة كثيرة ذكرها في الفصول العمادية والفصولين وغيرها وعبارة المحشي بعد قوله ويكون كالمستعير فيكلف قلعه متى شاء.
وفی الأشباه والنظائر - حنفي - (ج 1 / ص 219)
كل من بنى في أرض غيره بأمره ة فالبناء لمالكها.
فی رد المحتار(6/747سعید)
کل من بنی فی دار غیرہ بامرہ فالبناء لآمرہ ولولنفسہ بلاأمرہ فھولہ ولہ رفعہ.
وَلَوْ وَهَبَ رَجُلٌ شيئا لِأَوْلَادِهِ في الصِّحَّةِ وَأَرَادَ تَفْضِيلَ الْبَعْضِ على الْبَعْضِ في ذلك لَا رِوَايَةَ لِهَذَا في الْأَصْلِ عن أَصْحَابِنَا ۔۔۔عن أبي يُوسُفَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ إذَا لم يَقْصِدْ بِهِ الْإِضْرَارَ وَإِنْ قَصَدَ بِهِ الْإِضْرَارَ سَوَّى بَيْنَهُمْ يُعْطِي الِابْنَةَ مِثْلَ ما يُعْطِي لِلِابْنِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى۔ (الفتاوی الہندیۃ، ج4، ص391)
وَلَا يَتِمُّ حُكْمُ الْهِبَةِ إلَّا مَقْبُوضَةً وَيَسْتَوِي فيه الْأَجْنَبِيُّ وَالْوَلَدُ إذَا كان بَالِغًا۔ (الفتاوی الھندیۃ، ج4،ص377)
ولو وھب جمیع مالہ لابنہ جاز فی القضاء وھواثم۔ (خلاصۃ الفتاوی، ج4، ص)
وفی السنن الکبری للبیھقي:
عن ابن أبي ملیکۃ قال: کنت قاضیا لابن الزبیر علی الطائف، فذکر قصۃ المرأتین، قال: فکتبت إلی ابن عباسؓ، فکتب ابن عباس رضی اﷲ عنہما إن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: لو یعطی الناس بدعواهم لادعی رجال أموال قوم ودماء ہم، ولکن البینۃ علی المدعي، والیمین علی من أنکر۔ (السنن الکبری للبیھقي، مکتبہ دارالفکر بیروت ۱۵/ ۳۹۳، رقم: ۲۱۸۰۵)
وفی الحامدیۃ عن الولوالجیۃ: رجل تصرف زمانا فی أرض و رجل آخر یریٰ الأرض والتصرف ولم یدع ومات علی ذٰلک لم تسمع بعد ذٰلک دعویٰ ولدہ فتترک علی ید المتصرف الخ، ثم اعلم أنہ نقل العلامۃ ابن الغرس فی الفواکہ البدریۃ عن المبسوط: إذا ترک الدعویٰ ثلاثا و ثلاثین سنۃ ولم یکن مانع من الدعویٰ ثم ادعیٰ لاتسمع دعواہ لأن ترک الدعویٰ مع التمکن یدل علی عدم الحق ظاہرا ومثلہ فی البحر، وفی جامع الفتاویٰ: وقال المتأخرون من أہل الفتاویٰ: لا تسمع الدعویٰ بعد ست و ثلاثین سنۃ۔ (شامی، کتاب الخنثی، کراچی ۶/۷۴۲، زکریا ۱۰/۴۶۸)
وفی البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي - (ج 15 / ص 34)
(المدعي من إذا ترك ترك والمدعى عليه بخلافه) أي المدعي من لا يجبر على الخصومة إذا تركها والمدعى عليه من يجبر على الخصومة إذا تركها، ومعرفة الفرق بينهما من أهم ما يبتني عليه مسائل الدعوى. وقد اختلفت عبارات المشايخ فيه فمنها مافي الكتاب وهو حد عام صحيح.
وفی الاختيار لتعليل المختار - (ج 1 / ص 21)
المدعي من لا يجبر على الخصومة، والمدعي عليه من يجبر.
وفی المبسوط - (ج 19 / ص 443)
وأصل معرفة المدعي من المدعى عليه أن ينظر إلى المنكر منهما فهو المدعى عليه والآخر المدعي وهذا أهم
ما يحتاج إلى معرفته في هذا الكتاب وما ذكره في الكتاب كلام صحيح فإن النبي صلى الله عليه وسلم جعل المدعى عليه المنكر بقوله صلى الله عليه وسلم { واليمين على من أنكر }.
وفي تنقيح الحامدية (١/١٠٠)
(سُئِلَ) فِي دَارٍ مُشْتَرَكَةٍ بَيْنَ جَمَاعَةٍ بَنَى فِيهَا بَعْضُهُمْ بِنَاءً لِأَنْفُسِهِمْ بِآلَاتٍ هِيَ لَهُمْ بِدُونِ إذْنِ الْبَاقِينَ وَيُرِيدُ بَقِيَّةُ الشُّرَكَاءِ قِسْمَةَ نَصِيبِهِمْ مِنْ الدَّارِ الْمَذْكُورَةِ وَهِيَ قَابِلَةٌ لِلْقِسْمَةِ فَهَلْ لَهُمْ ذَلِكَ وَمَا حُكْمُ الْبِنَاءِ؟(الْجَوَابُ) : حَيْثُ كَانَتْ قَابِلَةً لِلْقِسْمَةِ وَيَنْتَفِعُ كُلٌّ بِنَصِيبِهِ بَعْدَ الْقِسْمَةِ فَلِبَقِيَّةِ الشُّرَكَاءِ ذَلِكَ ثُمَّ الْبِنَاءُ حَيْثُ كَانَ بِدُونِ إذْنِهِمْ إنْ وَقَعَ فِي نَصِيبِ الْبَانِينَ بَعْدَ قِسْمَةِ الدَّارِ فَبِهَا وَنِعْمَت وَإِلَّا هُدِمَ الْبِنَاءُ.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

١۸/٦/١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے