81614 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
عرض یہ ہے کہ میری ایک بیوہ بہن ........ کا 18 ستمبر 2023 کو انتقال ہوا ۔ میری اس بہن کی کو ئی اولاد نہیں ہے ۔ میری بہن جس گھر میں رہتی تھی وہ اس کی ساس کا تھا، ساس کے انتقال کے بعد میرے بہنوئی کا بھی انتقال ہو گیا اور بہن کے دیور نے وہ گھر اپنے اور اپنی بہن کے نام کر لیا ۔ کیا میری بہن کا اس گھر میں حصہ مل سکتا ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ میری بہن نے اپنا زیور بیچ کر ایک دکان خریدی تھی جو کہ میری بہن کے نام پر ہے۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ بہن کی وفات کے وقت ہم گیارہ بہن بھائیوں میں سے چار بہنیں زندہ تھیں ، جبکہ پانچ بہنوں اور دو بھائیوں کا انتقال ہو گیا ہے ، اور والدین اور چچا کا بھی انتقال ہو گیا ہے ، میرے بڑے بھائی کا کوئی بیٹا نہیں ہے ، تو میرے بھائی کے بیٹوں کا اس ترکے میں کوئی حصہ ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو کس حساب سے ہے؟
فون پر سائلہ نے بتایا کہ بہن کی ساس کے انتقال کے وقت ان کے وارثوں میں دو بیٹے تھے جن میں سے ایک کا عقد مہر النساء کے ساتھ ہوا تھا اور ایک بیٹی تھی ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
آپ کی ہمشیرہ کو اپنی ساس کے ترکے میں سے دسواں حصہ ملنا تھا ،جو اس کی وفات کے بعد آپ چاروں بہنوں اور آپ کے بھتیجوں میں برابر تقسیم ہو گا ۔لہذا کل چھ حصے کر کے ہر بہن اور ہر بھتیجے کو ایک ایک حصہ دیا جائے گا۔
اسی طرح آپ کی بہن کی دکان اور کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحومہ کے تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے اور اگر قرض ہو تو اس کی ادائیگی اور وصیت ہو تو تہائی مال سے اس کو نافذ کرنے کے بعد باقی مال کے چھ حصے کر کے ایک ایک حصہ ہر بہن کو اور ایک ایک حصہ ہر بھتیجے کو ملے گا۔
حوالہ جات
قال الله تعالى :فإن كن نساء فوق اثنتين فلهن ثلثا ما ترك و إن كانت واحدة فلها النصف .
(النساء: ١١)
قال الله تعالى: ولهن الربع مما تركتم إن لم يكن لكم ولد ،فإن كان لكم ولد فلهن الثمن مما تركتم .
(النساء:١١)
قال الله تعالى:يوصيكم الله في أولدكمۖ للذكر مثل حظ الأنثيين .(النساء: ١١)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى : قوله: ( و يقدم الأقرب فالأقرب ) أي الأقرب جهة ، ثم الأقرب درجة ، ثم الأقوى كقرابة ، فاعتبار الترجيح أولا بالجهة عند الاجتماع ، فيقدم جزءه كالابن و ابنه على أصله كالأب و أبيه ،و يقدم أصله على جزء أبيه كالإخوة لغير أم و أبنائهم . (رد المحتار : ١٠/٥١٨)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى : قوله: ( ويصير عصبة بغيره البنات بالابن و بنات الابن بابن الابن ) و إن سفلو ( و الإخوات ) لأبوين أو لأب ( بأخيهن). ( رد المحتار: ١٠/٥٢٢)
قال جمع من المؤلفين رحمهم الله تعالى:التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث. (الفتاوى الهندية:٦/٤٤٧)
احسن ظفر قریشی
دار الافتاء،جامعۃ الرشید،کراچی
19جمادی الآخرۃ 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | احسن ظفر قریشی بن ظفر محمود قریشی | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |