021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کو نشے کی حالت میں "میں نے تمہیں چھوڑ دیا”کہنے کا حکم
81622طلاق کے احکاممدہوشی اور جبر کی حالت میں طلاق دینے کا حکم

سوال

میرے  ماں باپ اور  گھر  والے روزانہ  صبح شام  اٹھتے بیٹھتے  مجھے  ایک ہی بات  کا پریشر  دیتے  تھے  کہ  اپنی  بیوی  کو  چھوڑ  دو ، ورنہ  ہم  تمہیں گھر سے  نکال  کر تمہارے  بچوں کو یتیم خانے  میں جمع  کروا  دیں  گے  ، تمہارا  سب  کچھ  چھین  لیں  گے ۔ یہ سلسلہ چھ ماہ  سے  چل رہا  تھا  ،جس کی وجہ سے میں نشے کی گولیاں کھانے لگ گیا تھا ،اور گولیاں کھا  کر میں آپے سے باہر ہو جاتا تھا ۔ ایک دن میں  نے نشے کی گولیاں کھائی ہوئی تھیں ،مجھ  سے زبردستی پریشر میں طلاق دلوائی گئی جو میں دینا نہیں چاہتا تھا  اور نہ دوں گا ،لیکن میرا  ہی دماغ بند تھا، مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا کہا تھا ، لیکن میرے بھائی کے بقول  میں نے تین دفعہ کہا تھا کہ میں نے تجھے چھوڑ دیا ۔تو کیا طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر واقعتا آپ کو یاد نہیں ہے کہ آپ نے کیا کہا تھا  اور بھائی کے علاوہ کوئی اس بات کا گواہ بھی نہیں ہے  تو طلاق واقع نہیں ہو گی، البتہ اگر آپ کو یاد ہے کہ آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تھے تو  طلاق واقع ہو جائے گی ،کیونکہ ضابطہ یہ ہے کہ نشہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

حوالہ جات
قال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى:(و) نصابها (لغيرها من الحقوق سواء كان) الحق (مالا أو غيره كنكاح وطلاق ووكالة ووصية واستهلال صبي) ولو (للإرث رجلان).(الدر المختار مع حاشية رد المحتار:٥/٤٦٥)
قال العلامة ابن عابدين الشامي رحمه الله تعالي : إن كان سكره بطريق محرم لا يبطل تكليفه، فتلزمه الأحكام ،وتصح عبارته من الطلاق والعتاق، والبيع والإقرار، وتزويج الصغار من كفء، والإقراض والاستقراض ؛لأن العقل قائم، وإنما عرض فوات فهم الخطاب بمعصيته، فبقي في حق الإثم ووجوب القضاء.(ردالمحتار : ٣/٢٣٩)
قال العلامة ابن عابدين الشامي رحمه الله تعالي : فإن سرحتك كناية، لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح. فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق ،وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت. (ردالمحتار : ٣/٢٩٩)
قال العلامة ابن عابدين الشامي رحمه الله تعالي : يقع طلاق كل زوج عاقل بالغ،ولو عبدا أو مكرها أو سكران. والحق التفصيل: إن كان للتداوي فكذلك وإن للهو وإدخال الآفة قصدا فينبغي أن لا يتردد في الوقوع.(رد المحتار:٣/٢٥٣)
قال العلامة ابن عابدين الشامي رحمه الله تعالي : قوله:(أو سكران) ولو بنبيذ أو حشيش أو أفيون أو بنج زجرا، وبه يفتى. (رد المحتار:٣/٢٤٠)
قال جمع من المؤلفين رحمهم الله تعالي:ومن سكر من البنج يقع طلاقه و يحد لفشو هذا الفعل.(الفتاوى الهندية:١١/٣٥٣)

احسن ظفر قريشي

دار الافتاء،جامعة الرشيد،کراچی

19 جمادی الآخرۃ1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسن ظفر قریشی بن ظفر محمود قریشی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے