021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عمرہ سے پہلے حالتِ احرام میں جماع کرنے اور نیا احرام باندھ کر عمرہ کرنے کا حکم
82352حج کے احکام ومسائلعمرہ کے مسائل

سوال

(1)۔۔۔ میاں بیوی نے اسلام آباد ائیر پورٹ سے عمرے کا احرام باندھا، جب وہ جدہ ائیر پورٹ پر پہنچے تو مکۃ المکرمۃ جانے کی بجائے جدہ میں اپنے کسی رشتہ دار کے پاس رات ٹھہرنے چلے گئے، اسی دوران ان دونوں میاں بیوی سے جماع کا فعل سرزد ہوگیا۔ بعد از جماع انہوں نے سمجھا کہ ہمارا احرام ٹوٹ چکا ہے اور ختم ہوگیا ہے، چنانچہ ان دونوں نے فاسد شدہ عمرہ مکمل کرنے کی بجائے قضا عمرہ کی نیت سے مکۃ المکرمۃ جا کر مسجدِ عائشہ سے دوبارہ احرام باندھ کر عمرہ ادا کیا۔ بعد میں کسی مفتی صاحب نے بتایا کہ جماع کی وجہ سے آپ کا احرام ختم نہیں ہوا تھا، آپ کو پہلے فاسد شدہ عمرہ ہی مکمل کرنا چاہیے تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم نے مسجدِ عائشہ سے جو عمرہ کیا ہے، وہ فاسد شدہ عمرہ کی تکمیل ہوگی یا قضا عمرہ کہلائے گا؟

(2)۔۔۔ نیز جب ہم دونوں میاں بیوی پہلے سے ہی احرام میں تھے اور مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے مسجدِ عائشہ سے پھر احرام کی نیت کر کے دوبارہ احرام باندھا تو کیا احرام پر احرام باندھنے کی وجہ سے ہم پر کوئی مزید عمرہ تو واجب نہیں ہوا؟ ایک عالمِ دین بتا رہے تھے کہ احرام پر احرام باندھنے کی وجہ سے آپ پر ایک اور عمرہ بھی واجب ہوگیا ہے۔

(3)۔۔۔ بالفرض اگر ہم پر قضا عمرہ ضروری ہے تو اس کا احرام کسی بھی میقات پر جا کر باندھنا ضروری ہوگا یا حدودِ حرم سے باہر کسی بھی جگہ سے احرام باندھ کر عمرہ کر لینا کافی ہوگا۔ میں نے کسی فقہ کی کتاب میں پڑھا تھا کہ قضا عمرہ کا احرام وہاں سے ہی باندھنا پڑے گا جہاں سے پہلے عمرہ کا احرام باندھا ہو۔ ہم نے پہلے عمرہ کا احرام اسلام آباد ائیر پورٹ سے باندھا تھا، کیا قضا عمرہ کا احرام بھی اسلام آباد ائیر پورٹ سے باندھنا ضروری ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ صورتِ مسئولہ میں آپ دونوں کا عمرہ فاسد ہوگیا تھا اور آپ دونوں پر وہی فاسد شدہ عمرہ مکمل کرنا لازم تھا، لہٰذا آپ نے جو عمرہ ادا کیا وہ فاسد شدہ عمرہ شمار ہوگا۔ البتہ احرام کی حالت میں جماع کی وجہ سے آپ دونوں پر دم اور اس عمرہ کی قضا بھی لازم ہوئی تھی۔ اس فاسد شدہ عمرہ کی تکمیل کے لیے نیا احرام باندھنے کی ضرورت نہیں تھی۔

(2)۔۔۔ صورتِ مسئولہ میں چونکہ آپ نے دوسرا احرام فاسد شدہ عمرہ کی قضاء کی نیت سے باندھا تھا (جیسا کہ سوال میں اس کی تصریح ہے)، اس لیے اس کی وجہ سے آپ پر دوسرا عمرہ لازم نہیں ہوا تھا۔ اگر آپ دوسرا احرام مستقل الگ عمرے کی نیت سے باندھتے تو پھر مزید ایک عمرہ اور ایک دم لازم ہوتا۔  

(3)۔۔۔ قضا عمرے کا احرام کسی بھی میقات سے پہلے باندھ سکتے ہیں، میقات سے باہر کی تمام جگہیں اس میں برابر ہیں، لہٰذا آپ پر قضا عمرے کا احرام اسلام آبادائیر پورٹ سے باندھنا لازم نہیں۔

حوالہ جات
المبسوط للشيباني (2/ 399):
ولو جامع المعتمر بعد ما طاف الأكثر من طوافه لم تفسد عمرته ومضى فيها وعليه دم. وإن جامع بعد ما طاف ثلاثة أشواط منه فسدت عمرته ومضى فيها، وعليه دم للجماع وعمرة مكانها.
الفتاوى الهندية (1/ 245):
وإن جامع في العمرة قبل أن يطوف أربعة أشواط فسدت عمرته فيمضي فيها ويقضيها وعليه شاة.  
اللباب مع شرح الملا علي القاري (246):
(ولو أهل الفائت بحجة أخری قبل الفراغ من الأولی فإن کان ینوي به) کان الأخصر والأظهر أن یقال: فإن نوی به (قضاء الفائتة فهي هي) أي بعینها، وتفسیرها قوله (و لایلزمه بهذا شیئ) أي سوی التي هو فیها، فیتحلل بالطواف والسعي کما لو لم یهل به (ونیته) أي بالثانیة (لغو) أي لا اعتبار لها (وعلیه قضاء الأولی لا غیر) أي لکون الثانیة لغوا (وإن نوی به) أي بإهلاله حجة أخری یرفضها) أي الحجة (ویحل بأفعال العمرة) لما تقدم مع ما فیه من الخلاف (وعلیه قضاء حجتین وعمة ودم) أي عند أبي حنیفة خلافا لهما؛ لما تقدم عنهما.
اللباب مع شرح الملا علي القاري (263):
باب العمرة…… (أحکام إحرامها کأحکام إحرام الحج من جمیع الوجوه) أي بالنظر إلی محظوراتها، وأما بالنظر إلی سائر أحکامها فباعتبار أکثرها من سنتها و آدابها و وجوبها من میقاتها ونحو ذلك (وکذا حکم فرائضها) أي في الجملة (وواجباتها) أي في بعضها (وسنتها) کذلك (ومحرماتها) أي بأسرها (ومفسدها) أي وإن اختلفا في محله (ومکروهاتها وإحصارها وجمعها) أي بین عمرتین و أکثر (وإضافتها) أي إلی غیره في نیتها (و رفضها) أي حال ضم غیرها إلیها (کحکمها في الحج أي في غالب أحکامها، وهي کثیرة لقولههي) أي العمرة (لا تخالف الحج إلا في أمور) أي یسیرة کما في نسخة ومجموعها أحد عشر……. الخ
 المبسوط للسرخسي (4/ 333)
قال: محرم بعمرة جامع ثم أضاف إليها عمرة أخرى، قال: يرفض هذه ويمضي في الأولى؛ لأن الفاسد معتبر بالصحيح في وجوب الإتمام، ولو كانت الأولى صحيحة كان عليه أن يمضي فيها ويرفض الثانية، فكذلك بعد فسادها. وكذلك لو لم يجامع في الأولى ولكنه طاف لها شوطا ثم أحرم بالثانية يرفض الثانية؛ لأن الأولى قد تأكدت لما طاف لها فتعينت الثانية للرفض. وكذا هذا في حجتين.
الدر المختار (2/ 587):
( ومن أتى بعمرة إلا الحلق فأحرم بأخرى ذبح ) الأصل أن الجمع بين إحرامين لعمرتين مكروه تحريما فيلزم الدم.
رد المحتار (2/ 587):
قوله ( ومن أتى بعمرة إلا الحلق الخ ) قدمنا أن الحكم في الجمع بين العمرتين كالجمع بين الحجتين أي في اللزوم والرفض ووقته مما يتصور في العمرة كما في اللباب، ثم قال: فلو أحرم بعمرة فطاف لها شوطا أو كله أو لم يطف شيئا ثم أحرم بأخرى لزمه رفض الثانية وقضاؤها ودم للرفض…… ولو أفسد الأولى أي بأن جامع قبل طوافها فأهل بالثانية رفضها ويمضي في الأولى، ولو نوى رفض الأولى وأن يكون عمله للثانية لم ينفعه، وكذا هذا في الحجتين اه، لكن قدمنا عنه أنه لو جمع بين عمرتين قبل السعي للأولى ترتفض إحداهما بالشروع من غير نية رفض، فقوله هنا "لزمه رفض الثانية" فيه نظر، فتدبر. قوله ( فيلزم الدم ) أي لجناية الجمع ولا دم لتأخير الحلق هنا؛ لأنه في العمرة غير موقت بالزمان كما مر، إلا إذا حلق قبل الفراغ من الثانية، فيلزم دم آخر كما علمته آنفا. 
غنیة الناسك (372):
فصل في الجمع بین إحرامي عمرتین فأکثر بأن یحرم بهما معا أو علی التعاقب أو علی التراخي: الحکم فیه کالحکم في الحجتین في اللزوم والرفض ووقت الرفض وغیر ذلك مما یتصور في العمرة.
فإذا أحرم بهما معا أو علی التعاقب بأن أحرم بأخری قبل أن یفرغ من السعي للأولی لزمه جمیع ذلك، ویرفض إحداهما في المعیة والثانیة في التعاقب، فعند أبي یوسف کما فرغ من إحرامیها، وعند أبي حنیفة إذا سار في إحداهما إلی مکة، وقیل: إذا شرع في عملها. وأما عند محمد فلم یلزمه إلا إحداهما في المعیة والأولی في التعاقب وعلیه دم الرفض وقضاء المرفوضة ولو في ذلك العام؛ لأن تکرار العمرة في سنة واحدة جائزة بخلاف الحج.
 وأما في التراخي بأن أحرم بأخری بعد أن یفرغ من السعي للأولی قبل الحلق فتلزمه الثانیة باتفاق الثلاثة ولایرفضها وعلیه دم الجمع، وإن حلق للأولی قبل الفراغ من الثانیة لزمه دم آخر اتفاقا، ولوبعده لا. 
ولو أفسد الأولی ثم أهل بالثانیة رفضها ویمضي في الأولی، ولو نوی رفض الأولی وأن یکون عمله للثا نیة لم ینفعه، فإنه لم یکن عمله إلا للأولی. وکذا هذا في الحجتین.
إمداد الأحکام (2/176-174):

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

19/جمادی الآخرۃ/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے