021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بھائیوں کا مشترکہ کاروبار میں اپنے بچوں کو شریک کرنے کا طریقہ
82242شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

ہماری والدہ کا جب انتقال ہوا تو ان کا مکان تھا جوورثاء میں تقسیم کردیا گیا، اس کے بعد ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوا، میراث میں سے بہنوں کو حصہ دینے کے بعد ہم پانچ بھائیوں کو والد صاحب کی طرف سے کاروبار ملا، جس کو باہم رضامندی سے اس طرح تقسیم کیا گیا کہ ایک ڈاکٹر بھائی (جو اپنا کلینک چلاتا ہے) کو دس فیصد حصہ، دوسرے بھائی (جو کاروبار میں زیادہ ٹائم نہیں دے سکتا) کو پندرہ فیصد اور باقی تین بھائیوں (جو کاروبار میں پورا وقت لگاتے ہیں) کو پچیس، پچیس فیصد حصہ دیا گیا۔ جو چار بھائی کاروبار میں کام کرتے ہیں ان کے گھر کےخرچ کے لیے تنخواہ مقرر ہے، اگر ان کو مزیدپیسوں کی ضرورت ہو تو اپنے اکاؤنٹ سے لے سکتے ہیں۔ یہ تقسیم کاروبار کے منافع کے مطابق ہے،اور جو جائیداد ہے اس میں سب بھائیوں کا بیس بیس فیصد حصہ ہے۔ ہمارے دو بھائیوں کی اولاد نہیں، جبکہ تین بھائیوں کے بچے کاروبار میں کام کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ تین بچوں کو کاروبار میں شامل کرلیں، اس کے لیے ترتیب یوں ہے کہ تینوں بچوں کا حصہ ان کے والد کے حصے میں سے چھ فیصد کردیں گے، اگر ان کو زیادہ رقم کی ضرورت ہو تو اپنے والد کے اکاؤنٹ سے لے سکتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اگر کوئی حصہ دار الگ ہونا چاہے تو تقسیم کس طرح ہوگی؟

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ یہ کاروبار ہمیں اپنے والد کی طرف سے ملا تھا، انہوں نے اپنی زندگی میں ہمارے حوالے کیا تھا، اس میں سے سب سے پہلے بہنوں کا حصہ نکال کر ان کو دیا گیا، پھر آپس میں مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق معاہدہ کیا کہ دکان کی پراپرٹی میں ہر ایک کا بیس بیس فیصد ہو گا، جبکہ نفع اور سامان وغیرہ میں سوال میں مذکور شرح فیصد کے حساب سے حصہ ہو گا۔

نیز سائل نے بتایا کہ چچوں سے حصہ علیحدہ کرنے کے بعد جب والد نے ہم سب بہن بھائیوں کا یہ کاروبار دیا تو اس وقت ان کے پاس ایک دکان تھی، جو سامان سمیت ہم بہن بھائیوں کو ہبہ کی گئی، والد کی وفات کے بعد ہم نے بہنوں کو ان کا وراثتی حصہ دے دیا تھا۔نیزسائل نے بتایاکہ ہمارا کاروبار اجناس جیسے چاول،چینی اور دیگر اجناس وغیرہ کی خریدوفروخت کا ہے اور کاروبار کافی بڑا ہے، جس کی مالیت کروڑوں میں ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں بیٹوں کو مذکورہ کاروبار میں شریک کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ کاروبار میں موجود اثاثوں کی دو تجربہ کار آدمیوں کے ذریعہ اندازہ سے قیمت لگوا کر ہر بھائی اپنے حصہ کا چھ فیصد اپنے بیٹے کو کسی بھی قیمت (اگرچہ یہ قیمت معمولی ہو، مگر یہ قیمت کاروبار میں موجود نقدی میں اس کے حصے کے چھ فیصد سے زیادہ طے کرنا ضروری ہے، تاکہ نقدی کے مقابلے میں نقدی اور بقیہ رقم اجناس اوراثاثوں میں اس کے حصے  کے مقابلے میں آجائے اور سود کا شبہ ختم ہو جائے) پر بیچ دے اور پھر اگر بیٹا اتنی قیمت ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ رقم اس کو معاف کردی جائے۔ (کذا فی امداد الاحکام:ج4ص:33)

اس کے بعد جب کوئی شریک کاروبار سے علیحدہ ہونا چاہے تو کاروبار میں موجود نقدی اور لوگوں کے ذمہ واجب الاداء قرضوں (Debt)سمیت تمام اثاثہ جات کی قیمت لگا کراس میں سے کاروبار پر واجب الاداء رقوم(Dues&Labilities) کو منہا کردیا جائے اور بقیہ رقم میں سے اس شریک کے حصہ کے برابر رقم اس کو ادا کر دی جائے تو اس کا حصہ کاروبار سے ختم ہو جائے گا۔

یہ بھی ياد رہے کہ شریعت نے اولاد کو کوئی چیز ہدیہ کرنے میں برابری کا حکم دیا ہے، خصوصاً جب کوئی گراں قیمت کی چیز ہبہ کی جائے، اس لیے ان بھائیوں کو چاہیے کہ وہ بیٹوں کو کاروبار میں حصہ ہبہ کرنے کی صورت میں اپنی بیٹیوں کو بھی اس کے برابر یا کم از کم اس کی نصف قیمت کے برابر کوئی چیز خرید کر دے دیں، تاکہ شریعت کے حکم کی پاسداری ہو جائے۔

وضاحت: آپ کے والد مرحوم نےجو دکان سامان سمیت آپ سب بہن بھائیوں کو مالکانہ طور پر دی تھی اور اس کا قبضہ بھی آپ حضرات کو دے دیا تھا توشرعا یہ ہبہ مکمل ہو گیا، کیونکہ پانچ چھ افراد کے درمیان یہ دکان تقسیم کرنے سے کاروبار کا پہلے کی طرح باقی رہنا ممکن نہیں تھا، لہذابظاہرفقہی اعتبار سے یہ دکان ناقابلِ تقسیم تھی اور فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اس طرح کی چیزوں میں بغیرتقسیم کے ہبہ (گفٹ)کے معاملے کو درست قرار دیا ہے، نیز اگر یہ دکان اور کاروبار بڑا ہونے کی وجہ سے قابلِ تقسیم ہو تو بھی چونکہ حضراتِ صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک ایک شخص کا دو یا دو سے زیادہ لوگوں کو ایک چیز مکمل طور پر بغیر تقسیم کے ہبہ کرنا درست ہے اور ضرورت کے وقت اس موقف کے مطابق بھی عمل کرنے کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 223) دار احياء التراث العربي – بيروت:
قال: "ولا تجوز الهبة فيما يقسم إلا محوزة مقسومة، وهبة المشاع فيما لا يقسم جائزة" ولنا أن القبض منصوص عليه في الهبة فيشترط كماله والمشاع لا يقبله إلا بضم غيره إليه، وذلك غير موهوب، ولأن في تجويزه إلزامه شيئا لم يلتزمه وهو مؤنة
القسمة، ولهذا امتنع جوازه قبل القبض لئلا يلزمه التسليم، بخلاف ما لا يقسم؛ لأن القبض القاصر هو الممكن فيكتفى به.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (5/ 688) ط: ايچ ايم  سعید:
" شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضاً غير مشاع مميزاً غير مشغول)".

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

19/جمادی الاخری 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے