82699 | نکاح کا بیان | نکاح کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
غیر مقلدین سے نکاح کرنے کے لیے ان جیسے عقائد کا اظہار کرنا
ہم نے نکاح کے لیے ایک لڑکی پسند کی ہے، ہمارے گھر والوں بھی وہ بہت پسند آئیں، ان کے گھر والوں کو بھی ہم لوگ پسند آئے۔ بس ان کے والد صاحب سخت اہلِ حدیث ہیں تو ان کو اس معاملے پر اختلاف ہے کہ وہ اہلِ حدیث سے باہر لڑکی نہیں دیں گے۔ باقی اور کسی بھی اعتبار سےکوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے جن مسئلوں کو اٹھایا اس میں درج ذیل مسائل بھی ہیں:
۱. عقیدے کا مسئلہ (جس میں وجود باری تعالیٰ پہ سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کہاں کہاں موجود ہیں؟)
۲. طریقہ نماز کا مسئلہ (نمازِ نبوی میں جو طریقہ نبی کریمﷺ سے ثابت شدہ درج ہے، اس طریقے سے نماز کیوں نہیں پڑھتے؟)
۳. ائمہ اربعہ کا مسئلہ (انکا موقف ہے کہ اﷲ اور نبی ایک ہیں، قرآن ایک ہے تو نبی کا طریقہ نماز بھی ایک ہی ہوگا تومختلف مسالک کیوں بنائے گئے؟)
۴. طلاق کا مسئلہ ( آپ قرآن کی خود تفسیر پڑھیں اور خود دیکھیں، اﷲ نے سورۃ طلاق میں جو طریقہ بتایا ہے وہ درست ہے یا آپ کے ائمہ کرام کا طریقہ درست ہے؟)
ہم ان سے جلد نکاح کرنا چاہتے ہیں، کوئی ایسا طریقہ بتایے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، کیا میں ان جیسے عقائد کا صرف زبان سے اظہار کر سکتا ہوں؟ جبکہ دل میرے تمام عقائد صحیح ہوں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بطورتمہیدجاننا چاہیےکہ اہلِ حدیث حضرات کا اہل السنہ والجماعہ کے ساتھ بعض اصولی مسائل میں اختلاف ہے، جیسے اجماع اور قیاس کو حجت نہ سمجھنا، ائمہ اربعہ کی تقلید کو جائز نہ سمجھنا، صفاتِ باری تعالی اور ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک سمجھنا وغیرہ، جبکہ یہ تمام عقائد گمراہ کن اور امت کے متفق علیہ عقائد کے خلاف ہیں، اس لیے صرف نکاح کی خاطر زبان سے ان عقائد کا اظہار کرنے یا ان میں نرمی کا برتاؤ کرنا درست نہیں،نیززبان سے ان کے عقائد کا اظہار کرنے اور دل میں اہل سنت والے عقائد رکھنے کی صورت میں غلط بیانی اور دھوکہ دہی کا ارتکاب کرنا لازم آتا ہے، اس لیے اس کی قطعا اجازت نہیں۔
نیز غیر مقلدین سے شادی کرنے کے بعد بھی میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث کافی مسائل درپیش آتے ہیں، جس کا نتیجہ بعض اوقات طلاق اور بعض مرتبہ آدمی کے خود غیر مقلد ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، جو کسی بھی طرح گمراہی سے کم نہیں ہے۔اس لیے اپنے اصولی عقائد کی وضاحت کے ساتھ ان کو یہ کہا جائے کہ اس اختلاف کے باوجود ہمارا شرعاً نکاح ہو سکتا ہے، پھر اگر وہ اپنی بیٹی کا آپ کے ساتھ نکاح کرنے پر آمادہ ہوں تو فبہا، ورنہ انکار کر دیا جائے۔
حوالہ جات
شفاء العليل في مسائل القضاء والقدر والحكمة والتعليل (ص: 82) لشمس الدين محمد بن أبي بكر ابن قيم الجوزية (المتوفى: 751هـ) دار المعرفة، بيروت، لبنان:
والتأويل الباطل يتضمن تعطيل ما جاء به الرسول والكذب على المتكلم أنه أراد ذلك المعنى فتتضمن إبطال الحق وتحقيق الباطل ونسبة المتكلم إلى ما لا يليق به من التلبيس والألغاز مع القول عليه بلا علم أنه أراد هذا المعنى فالمتأول عليه أن يبين صلاحية اللفظ للمعنى الذي ذكره أولا واستعمال المتكلم له في ذلك المعنى في أكثر المواضع حتى إذا استعمله فيما يحتمل غيره حمل على ما عهد منه استعماله فيه وعليه أن يقيم دليلا سالما عن المعارض على الموجب لصرف اللفظ عن ظاهره وحقيقته إلى مجازه واستعارته وإلا كان ذلك مجرد دعوى منه فلا تقبل.
المبسوط للسرخسي (6/ 57) دار المعرفة – بيروت:
(قال) وهذه المسألة مختلف فيها بيننا وبين الشيعة على فصلين (أحدهما) أنه إذا طلقها في حالة الحيض أو في طهر قد جامعها فيه يقع الطلاق عند جمهور الفقهاء وعندهم لا يقع (والثاني) أنه إذا طلقها ثلاثا جملة يقع ثلاثا عندنا والزيدية من الشيعة يقولون تقع واحدة والإمامية يقولون لا يقع شيء ويزعمون أنه قول علي كرم الله وجهه، وهو افتراء منهم على علي - رضي الله تعالى عنه - فقد ذكر بعد هذا في كتاب الطلاق عن علي وابن مسعود - رضي الله تعالى عنهما - أن الثلاث جملة تقع بإيقاع الزوج والمشهور من قول علي .
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
8/رجب المرجب 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |