021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گھر اورجائیداد کی تقسیم پر اعتراض اوردوبارہ تقسیم کا مطالبہ
82416تقسیم جائیداد کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ پانچ بھائی (عبد الرزاق،عبد الستار،محمدشیعب،محمد درویش اورمولوی محمدایوب) جوائینٹ فیملی میں رہتے تھے،والد صاحب کی وفات کے بعد بھی کافی عرصے تک وہ اسی طرح رہیں،پھر ایک بھائی مولوی محمدایوب نے الگ ہونے کامطالبہ کردیا،چنانچہ رشتہ داروں نے گھر کے آس پاس جو زمین موجود تھی وہ پانچ حصوں میں تقسیم کردی،مولوی ایوب کو اس کا حصہ دے دیا ،وہ اس میں تصرف کرنے لگا ،جبکہ بقیہ چاربھائیوں کے حصے بھی متعین تھے، لیکن وہ جوائنٹ رہتے تھے اورکاروبار،کھانا پینا  سب مشترک تھا ۔

گھر کی تقسیم اس طرح ہوئی کہ تین بھائیوں( مولوی ایوب،محمد شعیب اورعبد الرزاق) کو ایک ایک کمرہ ملا ،محمد درویش کے حصے میں دو کمرے آئے تھے سب کے اتفاق سے،بھائی عبد الستار کوبھی ایک کمرہ ملاتھا، لیکن پھر ان کے بیٹوں کی شادی ہوئی تو تین کمرے انہیں مزیدملے، اوربھائی عبد الرزاق کے بیٹے کی شادی ہوئی توانہیں بھی ایک کمرہ اورملا۔

باقی جائیداد اورکچھ دکانیں ابھی تک تقسیم نہیں ہوئی، مولوی ایوب کو جو کمرہ ملاتھا  سب کی مشاورت اوراتفاق سے وہ کمرہ انہوں نے قیمت لگاکردوسرے بھائیوں کوفروخت کردیا کہ وہ اپنے لیے دوسرا گھر بناکر یہاں سے نکلے گا۔

اب مسئلہ یہ ہےکہ مولوی ایوب کا کہنا ہے کہ دیگر بھائیوں کوکمرےزیادہ ملے تھے لہذاامیں اس فروخت شدہ کمرہ سے نہیں نکلونگا، مجھےبھی مزیدکمرہ دیاجائے ،دیگربھائیوں کاکہناہے کہ اگرآپ اس پر راضی نہیں ہے تو پھر جائیداد ازسرِنو تقسیم کرلیتے ہیں ،جائیداد تقسیم کرتے وقت دوبھائی موجودنہیں تھے اگرچہ بعد میں وہ خاموش رہیں اورکچھ نہیں کہتے تھے لیکن آپس میں جب یہ مسئلہ کھڑا ہوا تو پھروہ  کہتے لگے ہیں  کہ ہم تو جائیداد تقسیم کرتے وقت موجودنہیں تھے،ہم اس پر راضی نہیں ہیں حالانکہ بقیہ چاربھائی بھی پھر الگ ہوکر ایک سال تک سب نے اپنی اپنی زمینوں میں تصرف بھی کیاہے۔اب دریافت طلب اموردرج ذیل ہیں:

1. مولوی ایوب جوکہ کمرہ چھوڑنے کےلیے تیارنہیں ہے،کیا اس بنیاد پر دیگربھائیوں کا ازسرِ نو تقسیم  کا مطالبہ کرنا صحیح ہے یانہیں؟

2. جن بھائیوں کو گھر میں زیادہ کمرے ملے تھے اس کی کیاحیثیت ہے؟

3. ان پانچ بھائیوں نے ایک دکان خریدی تھی اورخریدتے وقت سب نے اتفاق سے یہ طے کیاتھا کہ بعدمیں جو بھی دکان میں حصہ نہیں لینا چاہے گا تو اس کو جس وقت دکان خریدی تھی وہی قیمت اپنے حصے کی واپس لینا پڑے گی،اب کئی سال بعدمولوی ایوب کہہ رہاہے کہ مجھے آج کی قیمت پر اپنا حصہ فروخت کرناہے۔ کیا ان کا یہ مطالبہ صحیح ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1.  مشترکہ چیز کی تقسیم کےوقت اگرکوئی شریک غائب ہواوراس کا کوئی وکیل بھی موجود نہ ہو تو ایسی تقسیم شرعاً جائزنہیں ہوتی،کیونکہ تقسیم تبادلہ کے حکم میں ہے جس میں رضاء ضروری ہے،جوغائب ہونے کی صورت میں نہیں ہوتی ،لہذا پوچھی گئی صورت میں اگران دو بھائیوں نے پہلی تقسیم پر رضامندی ظاہر نہیں کی تھی  یا ان پر کسی قسم کا(اخلاقی یا معاشرتی)  دباؤتھا توپھران کا دوبارہ تقسیم کا مطالبہ کرنادرست ہے ۔

لیکن اگرمسئولہ صورت میں ان بھائیوں نے حاضرہونے کے بعدپہلی تقسیم پر رضامندی ظاہر کردی تھی، اورجائیداد میں اپنے حصے بخوشی قبول کرلیے تھے، اور اس سلسلے میں ان پر کسی قسم کی کوئی (اخلاقی یا معاشرتی) زبردستی یا دباؤ وغیرہ نہیں ڈالا گیا تھا، تو یہ تقسیم شرعاً معتبر ہے، اب ان کی طرف سے دوبارہ تقسیم کا مطالبہ درست نہیں ہے ۔

2. جب سب مانتے ہیں کہ مشترکہ گھر کی تقسیم میں بعض کو کمرے زیادہ دیئے گئے ہیں اوربعض کو کم تو یہ تقسیم غیر عادلانہ تھی،لہذا اس کو ختم کرکے دوبارہ عادلانہ تقسیم کی جائے گی،مولوی ایوب نے جس بھائی سےکمرے کے عوض پیسے لیے تھے وہ اس کو واپس کردے ۔

3. بھائیوں کے درمیان جو اتفاق ہوا تھا اس کی شرعی حیثیت ایک وعدہ کی ہے اگراسے پورا کیاجائے تو اچھی بات ہے، تاہم اس پروہ مجبورنہیں، لہذا مذکورہ بھائی اپناحصہ جتنے کا چاہیے فروخت کرسکتاہے۔دیگربھائی اس کو قیمتِ خرید لینے پر مجبورنہیں کرسکتے۔

حوالہ جات
وفی شرح المجلة لسلیم رستم ( 624الفصل الثانی فی شرائط القسمة)
اذا قسم الورثة الترکة بینھم بغیر امر القاضی وفی الورثة صغیر اوغائب اوشریک للمیت لاتصح الاباجازة الغائب اوولی الصغیراوراجازة الصبی بعد البلوغ .
و فی شرح المجلۃ:
یشترط فی قسمۃ التراضی رضا کل واحد من المتقاسمین بناء علیہ اذا غاب احدھم لا تصح قسمۃ التراضی (شرح المجلۃ ۴:۶۹،المادۃ ۱۱۲۸)
وفی البحر الرائق:
ولو ظھر غبن فاحش فی القسمۃ تفسخ۔ (البحر الرائق، کتاب القسمۃ زکریا ۸/۲۸۳، کوئٹہ ۸/۱۵۶،
وکذا فی تبیین الحقائق امدادیہ ملتان ۵/۲۷۳، زکریا ۶/۴۱۹)
بدائع الصنائع: (فصل فی صفات القسمۃ، 26/7)
وأما صفات القسمۃ فأنواع منہا أن تکون القسمۃ عادلۃ غیر جائرۃ وہی الی ان قال فإذا وقعت جائرۃ لم یوجد التراضی ولا إفراز نصیبہ بکمالہ لبقاء الشرکۃ فی البعض فلم تجز وتعاد۔وعلی ہذا إذا ظہر الغلط فی القسمۃ المبادلۃ بالبینۃ أو بالإقرار تستأنف لأنہ ظہر أنہ لم یستوف حقہ فظہر أن معنی القسمۃ لم یتحقق بکمالہ.
و قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالیٰ:
و لو ظھر غبن فاحش فی القسمۃ فان کانت بقضاء بطلت و لو وقعت بالتراضی بطل ایضا فی الاصح و تسمع دعواہ ذلک ان لم یقربالاستیفاء و ان اقر بہ لا تسمع دعوی الغلط والغبن للتناقض ۔(در مختار مختصرا ) وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ: قید بالفاحش لانہ لو یسیرا یدخل تحت تقویم المقومین لا تسمع دعواہ ولا تقبل بینتہ ۔(ردالمحتار ۵:۱۸۷کتاب القسمۃ.
قال اللہ تعالی:وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا۔(الإسراء: 34)
عن عبادة بن الصامت قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اضمنوا لي ستا من أنفسكم أضمن لكم الجنة: اصدقوا إذا حدثتم، وأوفوا إذا وعدتم، وأدوا إذا اؤتمنتم، واحفظوا فروجكم، وغضوا أبصاركم، وكفوا أيديكم "۔(السنن الكبرى للبيهقي، باب ما جاء في اللترغيب في أداء الأمانات، ص:6،ص:288)
قال رحمه الله ( لا ينعقد بلفظين .أحدهما الماضي ، والآخر بلفظ المستقبل ) وإنما لا ينعقد بذلك لأن النبي صلى الله عليه وسلم استعمل فيه لفظ الماضي الذي يدل على تحقق وجوده فكان الانعقاد مقتصرا عليه ، ولأن لفظ المستقبل إن كان من جانب البائع كان عدة لا بيعا ، وإن كان من جانب المشتري كان مساومة ۔(العناية شرح الهداية، كتاب البيوع، ج:3،ص:45)
وفی دررالحكام في شرح مجلة الأحكام
"لأن للإنسان أن يتصرف في ملكه الخاص كما يشاء وليس لأحد أن يمنعه عن ذلك ."(الكتاب الثاني الإجارة، الباب الرابع في بيان المسائل التي تتعلق بمدة الإجارة، ما لم ينشأ عن تصرفه ضرر بين لغيره (انظر المادة 1192)، ج:1، ص:559، ط:دارالجيل(
وفی بدائع الصنائع :
"‌للمالك ‌أن ‌يتصرف في ملكه أي تصرف شاء." (كتاب الدعوى، دعوى النسب، فصل في بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل، ج:6، ص:264، ط:دارالكتب العلمية(

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

۲۳/٦/١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے