021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سوئی سدرن گیس کمپنی کے مصلیّٰ میں جمعہ کی نماز کاحکم
82555نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

ہمارے ادارے سوئی سدرن گیس کمپنی (ہیڈ آفس کراچی) میں جامع مسجد نہیں ہے ۔ مذکور ہ ادارہ کراچی میں سوک سینٹر کے پاس واقع ہے۔ ادارے نے ایک جائے نمازیعنی مصلیٰ بنایا ہوا ہے، جہاں میں بحیثیتِ امام خدمات انجام دے رہا ہوں۔ الحمد للہ چار وقت کی نماز باجماعت ادا ہوتی ہے، ظہر اور عصر کی دو جماعتیں ادا ہوتی ہیں۔ اس مصلیٰ میں تقریبا 200 افراد بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں، مزید پیچھے بھی صفیں بچھائی جاتی ہیں۔ اس ادارے میں کام کرنے والے عملے کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ جب رمضان المبارک میں ظہر کی نماز میں نمازیوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے تو انتظامیہ مصلیٰ والی جگہ کی بجائے متبادل   کے طورپرپارکنگ کی ایک جگہ متعین کرا کر وہاں ظہر کی نماز اداکرواتی ہے۔ رمضان میں نمازِ فجر کا مسئلہ یہ ہے کہ ادارے میں کام کرنے والا عملہ عشاء کے بعد گھروں کو چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے فجر کی نماز کا اہتمام نہیں ہوتا۔ گارڈ والے حضرات نماز فجر کی جماعت کبھی کرواتے ہیں اور کبھی نہیں کرواتے ۔

ہمارے ادارے میں جمعہ کا اہتمام نہیں ہوتا۔ ادارے کی حدود سےباہر قریب میں دو مساجد ہیں، ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف، پونے کلو میٹر اور آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ یہ دونوں مساجد الگ الگ  اداروں کی ہیں ، وہاں جا کر جمعہ ادا کر نا پڑتا ہے، وہاں اذن عام ہے۔  تقریبا کم و بیش 20 فیصد لوگ نماز جمعہ کی ادائیگی نہیں کرتے بلکہ محروم ہوتے ہیں۔ سوئی گیس کے ادارے کے 20 فیصد لوگ مراد ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تمام نمازوں کی طرح نمازِجمعہ کی ادائیگی بھی ادارے کے اندر ہو۔ کیا ان شرائط کا ہو نا نماز جمعہ کے لیے ضروری ہے؟

  1. پانچ وقت کی نماز جماعت سے ہوتی ہو؟ جبکہ یہاں پر پانچ وقت کی جماعت نہیں ہوتی، فجر کی جماعت مستقل نہیں ہوتی۔
  2. جامع مسجد شرعی ہو ؟ جبکہ ادارے کی یہ مسجد شرعی مسجد نہیں ہے ۔

.3 اذنِ عام  ہو؟ جبکہ اس کمپنی میں سیکیورٹی مسائل کی بنیاد پر ہر کسی کو اندر آنے کی اجازت نہیں، صرف کسٹمر یا مہمان آ سکتا ہے ۔ ادارے میں کام کرنے والے عملے کی تعداد ہزارسے زائد ہے۔  

کیاشرعاً یہاں جمعہ کی نماز کی ادائیگی ہو سکتی ہے یانہیں؟ اگر کوئی جائز صورت ہے تو تحریر فرماد یں؛ تاکہ میں ادارے کی انتظامیہ اور بااختیارحضرات کے سامنے بات کر سکوں کہ وہ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کا بہترسے بہتر انتظام کر سکیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ  جمعہ کے دن بلا عذرِ شرعی جمعہ کی نماز چھوڑنا ہرگز جائز نہیں، سخت گناہ کی بات ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص (عذرِ شرعی کے بغیر) سستی کی وجہ سے تین جمعے مسلسل چھوڑ دے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر  لگا دے گا۔ ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ ایسے شخص کو ایسی کتاب میں منافق لکھ دیا جاتا ہے جس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے آپ کے ادارے میں جو لوگ جمعہ کے دن جمعہ کی نماز نہیں پڑھتے، ان پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر توبہ و استغفار کریں  اور آئندہ کے لیے جمعہ کی نماز پڑھنے کا پکا عزم کرلیں۔   

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ نمازِ جمعہ کے لیے جامع مسجد شرعی اور اس میں پانچ وقت باجماعت نماز کا ہونا شرط نہیں۔ لیکن اصل یہی ہے کہ جمعہ کی نماز سمیت تمام نمازیں مسجدِ شرعی میں ادا کی جائیں؛ تاکہ مسجد کی فضیلت سے محرومی نہ ہو۔ البتہ اگر کہیں پر مسجدِ شرعی نہ ہو تو عارضی طور پر مصلّٰی بنانا اور اس میں باجماعت نمازیں ادا کرنا بھی درست ہے۔ جہاں تک "اذنِ عام" کی شرط کا تعلق ہے تو سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر ہر کسی کو کمپنی کے اندر آنے کی اجازت نہ دینا "اذنِ عام" کے منافی نہیں؛ لہٰذا مذکورہ مصلّٰی میں جمعہ کی نماز قائم کرنا درست ہے۔ (باستفادۃٍ من فتاویٰ عثمانی:1/523)

تاہم سوئی سدرن گیس کمپنی کے با اختیار حضرات کی ذمہ داری ہے کہ ادارے کے اندر مسجد کے لیے جگہ وقف کر کے اتنی بڑی مسجد تعمیر کریں جو ادارے میں کام کرنے والوں کے لیے کافی ہو اور وہ سب بہ یک وقت اس میں جماعت ادا کر سکتے ہوں۔ اگر فوری طور پر مسجد کی تعمیر میں کوئی مشکل ہو تو اس مشکل کے حل ہونے کی تگ و دو کی جائے اور اس وقت تک کم از کم مصلّٰی کی جگہ میں اتنی توسیع کریں جس میں تمام عملہ بہ یک وقت جماعت کی نماز ادا کر سکیں؛ کیونکہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق موجودہ مصلّٰی میں 200 تک نمازی ایک وقت میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتے ہیں، حالانکہ ادارہ میں کام  کرنے والے افراد 1,000 سے زائد ہیں۔               

حوالہ جات
سنن أبي داود (2/ 285):
عن أبي الجعد الضمري، وكانت له صحبة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم  قال: "من ترك ثلاث جمع تهاونا بها، طبع الله على قلبه".
مشكاة المصابيح (1/ 308):
 عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من ترك الجمعة من غير ضرورة كتب منافقا في كتاب لا يمحى ولا يبدل " ، وفي بعض الروايات "ثلاثا" ، رواه الشافعي.    
الدر المختار (2/ 152-151):
 ( و ) السابع ( الإذن العام ) من الإمام، وهو يحصل بفتح أبواب الجامع للواردين، كافي.  فلا يضر غلق باب القلعة لعدو أو لعادة قديمة؛ لأن الإذن العام مقرر لأهله، وغلقه لمنع العدو لا المصلي. نعم! لو لم يغلق لكان أحسن، كما في مجمع الأنهر معزيا لشرح عيون المذاهب. قال: وهذا أولى مما في البحر و المنح، فليحفظ. ( فلو دخل أمير حصنا ) أو قصره ( وأغلق بابه ) وصلى بأصحابه ( لم تنعقد ) ولو فتحه وأذن للناس بالدخول جاز وكره، فالإمام في دينه ودنياه إلى العامة محتاج فسبحان من تنزه عن الاحتياج.
رد المحتار (2/ 152-151)
قوله ( لأن الإذن العام مقرر لأهله ) أي لأهل القلعة؛ لأنها في معنى الحصن، والأحسن عود الضمير إلى المصر المفهوم من المقام؛ لأنه لا يكفي الإذن لأهل الحصن فقط، بل الشرط الإذن للجماعات كلها، كما مر عن البدائع.  قوله ( وغلقه لمنع العدو الخ ) أي أن الإذن هنا موجود قبل غلق الباب لكل من أراد الصلاة، والذي يضر إنما هو منع المصلين لا منع العدو.   قوله ( لكان أحسن ) لأنه أبعد عن الشبهة؛ لأن الظاهر اشتراط الإذن وقت الصلاة لا قبلها؛ لأن النداء للاشتهار كما مر، وهم يغلقون الباب وقت النداء أو قبيله، فمن سمع النداء وأراد الذهاب إليها لا يمكنه الدخول فالمنع حال الصلاة متحقق، ولذا استظهر الشيخ إسماعيل عدم الصحة، ثم رأيت مثله في نهج الحياة معزيا إلى رسالة العلامة عبد البر بن الشحنة، والله أعلم. قوله ( وهذا أولى مما في البحر والمنح ) ما في البحر و المنح هو ما فرعه في المتن بقوله فلو دخل أمير حصنا أي أنه أولى من الجزم بعدم الانعقاد.  
قوله ( أو قصره ) كذا في الزيلعي والدرر وغيرهما وذكر الواني في حاشية الدرر أن المناسب للسياق أو مصره بالميم بدل القاف.   قلت: ولا يخفى بعده عن السياق.  وفي الكافي التعبير بالدار حيث قال: والإذن العام وهو أن تفتح أبواب الجامع ويؤذن للناس حتى لو اجتمعت جماعة في الجامع وأغلقوا الأبواب وجمعوا لم يجز وكذا السلطان إذا أراد أن يصلي بحشمة في داره فإن فتح بابها وأذن للناس إذنا عاما جازت صلاته شهدتها العامة أو لا وإن لم يفتح أبواب الدار  وأغلق الأبواب وأجلس البوابين ليمنعوا عن الدخول لم تجز لأن اشتراط السلطان للتحرز عن تفويتها على الناس وذا لا يحصل إلا بالإذن العام، اه.
قلت: وينبغي أن يكون محل النزاع ما إذا كانت لا تقام إلا في محل واحد، أما لو تعددت فلا؛ لأنه لا يتحقق التفويت كما أفاده التعليل، تأمل.   
قوله ( لم تنعقد ) يحمل على ما إذا منع الناس، فلا يضر إغلاقه لمنع عدو أو لعادة كما مر ط. قلت: ويؤيده قول الكافي وأجلس البوابين الخ فتأمل.…….. قوله (وكره) لأنه لم يقض حق المسجد الجامع، زيلعي و درر.                                                                                

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     04/رجب المرجب/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے