021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خالی مکان میں زکوة واجب ہونے کی تفصیل
82643زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

ایک شخص  کی  ملکیت  ایک خالی  مکان  ہے ، کوئی  اس میں رہائش پذیر نہیں  یعنی  نہ مالک خود رہتا  ہے نہ ہی کسی کو  کرایہ پردیا  گیا  اس مکان  کی مالیت  پر زکوة لازم ہوگی یانہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر مذ کورہ مکان   رہائشی  ہے ،یعنی  رہائش کے لئے  بنوایا   گیاہے ،ایسے  میں  مکان میں  رہائش  اختیار کریں یا  مکان خالی رہے   دونوں صورتوں  میں اس مکان  کی مالیت  پر زکوة واجب نہیں  ہے ، اور اگر مکان  تجارت  کی نیت سے  خریدا  یا بنوایا  گیا  ہے ،یعنی اس کو فروخت کرکے  نفع حاصل کریں  گے ،اورتجارت  کی   نیت  ابھی تک  باقی  بھی ہے  ،ایسے  مکان کی مالیت  پر  زکوة  واجب  ہے ،کہ ہرسال زکوة  حساب  کرنے  کی مقررہ  تاریخ  میں اس کی مارکیٹ  ریٹ معلوم کرکے ڈحا ئی فیصد  کے حساب سے زکوة  ادا کی جائے ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 272)
(وما اشتراه لها) أي للتجارة (كان لها)لمقارنة النية لعقد التجارة (لا ما ورثه ونواه لها) لعدم العقد إلا إذا تصرف فيه أي ناويا فتجب الزكاة لاقتران النية بالعمل
 (قوله: كان لها إلخ) لأن الشرط في التجارة مقارنتها لعقدها وهو كسب المال بالمال بعقد شراء أو إجارةو استقراض حيث لا مانع على ما يأتي في الشرح مع بيان المحترزات؛ ثم إن نية التجارة قد تكون صريحا وقد تكون دلالة، فالأول ما ذكرنا، والثاني ما تقدم في الشرح عند قول المصنف أو نية التجارة۔

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

۵ رجب ١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے