021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کے نام گھر ہونے کاحکم
82642میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

ایک   خاتون  ہے ، اس کے   نام   گھر بھی ہے ،  اور کچھ زیورات بھی ہیں ،   اگر اس عورت کا انتقال ہوجائے  اور  پیچھے رشتے دار یہ ہیں ،شوہر، دو لڑکیاں،دو بہنیں  اور دو بھائی ،والدین  پہلے فوت ہوچکے ہیں ، جبکہ  یہ خاتون زندہ  ہیں ،بھائی پوچھ  رہے ہیں کہ  اگر تو  فوت ہوگئی   تو تمہارے  مال میں  ہمارا کیاحصہ ہوگا  ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بطور وضاحت  یہ بات سمجھ لیں کہ  کوئی  جائداد خریداری کے  وقت  صرف کسی کے نام  کرنے سے وہ مالک نہیں بنتا ،مالک  بننے کے لئے ضروری ہے کہ ھبہ کرکے  باقاعدہ  طور پر اس کوجائداد کا  مالک بنادیا جائے ،دوسری  بات یہ ہے کہ وارث  وہ قریبی  رشتہ دار ہے جو میت  کے انتقال کے وقت  زندہ  ہو،   اگر کسی وارث کا انتقال میت سے پہلے ہوجائے   تو اس کا میت کی میراث میں کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے۔

اس وضاحت  کےبعد صورت مسئولہ  میں اگر خانون  کے انتقال کے  وقت  سوال  میں مذکور  رشتے دار  زندہ ہوں   تو  خاتون کی میراث اس طرح تقسیم ہوگی  کہ مرحومہ کی ملک میں بوقت انتقال مذکورہ زیورات  سمیت   منقولہ غیر منقولہ جائداد ،سونا چاندی  ،نقدی اور  چھوٹا   بڑا   جو  سامان   بھی  تھا سب مرحومہ کا ترکہ  کہلائے گا،  اس میں  سےپہلے  اگرمرحومہ کے ذمے   کسی کا  واجب الادا   قرض  ہو  توکل  مال سے اس کو ادا  کیاجائے ، اس کے بعد اگر کسی کے لئے  کوئی جائز وصیت  کی ہو تو تہائی   مال کی  حد تک  اس پر عمل کیاجائے گا ، اس کے بعد    مال کو مساوی  72 حصوں میں تقسیم کرکے  18حصے  شوہر کو  اور 48 حصے دونوں  لڑکیوں کو اور  2،2حصے  بھائیوں  کو اور ایک ایک حصہ   بہنوں کو  دیاجائے گا ۔

یعنی  خاتون کے ترکے میں چوتھائی   حصہ  شوہر کا ،اور دوتھائی  حصے  دونوں لڑکیوں کا  ،باقی مال  بھائی بہنیں   ایک  اور  دو کی نسبت سے  تقسیم کریں گے۔

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (4/ 514)
قال: "ولا تجوز لوارثه" لقوله عليه الصلاة والسلام: "إن الله تعالى أعطى كل ذي حق حقه، ألا لا وصية لوارث" ولأنه يتأذى البعض بإيثار البعض ففي تجويزه قطيعة الرحم ولأنه حيف بالحديث الذي رويناه، ويعتبر كونه وارثا أو غير وارث وقت الموت لا وقت الوصية لأنه تمليك مضاف إلى ما بعد الموت، وحكمه يثبت بعد الموت. "والهبة من المريض للوارث في هذا نظير الوصية" لأنها وصية حكما حتى تنفذ من الثلث، وإقرار المريض للوارث على عكسه لأنه تصرف في الحال فيعتبر ذلك وقت الإقرار.
قال: "إلا أن تجيزها الورثة" ويروى هذا الاستثناء فيما رويناه، ولأن الامتناع لحقهم فتجوز بإجازتهم؛ ولو أجاز بعض ورد بعض تجوز على المجيز بقدر حصته لولايته عليه وبطل في حق الراد.

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

۵ رجب ١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے