021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ پلاٹ میں کسی شریک کا اپنا حصہ فروخت کرنا
82635خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

زید ،بکر اورعمرو نے ایک مکان خریدا،جس کی قیمت 27 لاکھ روپے تھی، ایک لاکھ بروکرنے لیا ،تو ٹوٹل 28 لاکھ میں پلاٹ پڑا، اس میں سے 4 لاکھ ایڈوانس  اورباقی پچاس ہزار ماہانہ قسط ہے، ایک سال بعد زید اپنا حصہ ﴿جوکہ نصف ہے﴾کسی باہر کے بندے کو بیچنا چاہتاہے،جبکہ اس کی دو ماہ کی قسطیں پیچھے شاٹ ہیں، اس پلاٹ کی موجودہ ویلیو 36 لاکھ روپے ہوگئی ہے، جبکہ تین افراد زید،بکر اورعمرو پلاٹ میں برابرشریک نہیں ہیں،ایڈوانس والی رقم کا پرافٹ ایک فیصد الگ سے زیادہ دیا جائے گا،مجھے دو چیزیں معلوم کرنی ہے:

١۔ایڈوانس والی رقم کا الگ پرافٹ ٹھیک ہے؟

۲۔جتنی اقساط اد اکی ہیں، پرافٹ اس کا ہوگا یا دو پیچھے شاٹ قسطوں کا پرافٹ بھی ہوگا؟ شرعی لحاظ سے اس میں جو بھی خرابی ہو وہ واضح فرمادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

﴿١،۲﴾  مذکورہ تین لوگوں نے جو پلاٹ قسطوں پر خریدا ہے اگر مکمل مالکانہ حقوق کے ساتھ ان کا یہ معاملہ طے ہوا ہے توبیع ہوجانے کے بعد یہ پلاٹ شرکاء کی ملک میں آچکا ہے اوراس پر بیچنے کی صورت میں جو نفع آئےگا وہ پلاٹ کانفع ہوگا،نہ کہ ایڈوانس رقم اورکسی قسط کا ، پلاٹ میں جو جس تناسب سے شریک ہے پورا پلاٹ بکنے کی صورت میں وہ اسی تناسب سے نفع کا مالک بنے گا، اوراگرکوئی شریک صرف اپنا حصہ بیچنا چاہتاہے تو وہ جتنے کا چاہے فروخت کرسکتاہے ،اس سے جو بھی نفع کم یا زیادہ حاصل ہوگاوہ اسی کا ہوگا،شرکاء کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

لہذا مسئولہ صورت میں زید مذکورہ پلاٹ میں اپنا مشترک حصہ ﴿نصف﴾جتنے کا چاہے فروخت کرسکتا ہے اور اس سے جوبھی پرافٹ آئےگاوہ صرف اسی کا ہوگا۔

جوقسطیں شاٹ ہیں اورجو اس کے ذمہ باقی ہیں وہ سب یا توزیدساری کی ساری اپنے ذمہ لےلےیابائع﴿جس کو قسطیں دینی ہے﴾ کی رضامندی سےاس کی ادائیگی خریدار پر ڈالدےیعنی حوالہ دیدےاورخریداراس کوقبول کرلے اورثمن میں سے ان قسطوں کے بقدررقم کاٹ لے ۔

حوالہ جات
وفی شرح المجلة لسليم رستم باز:
يصح بيع حصة شائعة معلومة كالنصف والثلث والعشر من عقار مملوك قبل الافراز أما إذا كانت الحصة غير معلومة فالبيع فاسد لجهالة المبيع فلو قال لرجل بعتك نصيبي من هذه الدار بكذا وقبل المشتري ولم يكن عالما بنصيبه لا يجوز هذا البيع وإن علم جاز ( خانية ) ... سواء باع من شر يکه أو من أجنبي ولا يشترط فيه إذن الشريك (هندية). (شرح المجلة لسليم رستم باز، الباب الثاني، الفصل الثاني، رقم المادة:214، ص:103)
وفی درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 188):
بيع حصة شائعة معلومة كالثلث والنصف والعشر من عقار مملوك قبل الإفراز صحيح.مثال ذلك: إذا باع إنسان من آخر حصته في الدار الفلانية فإذا كان الآخر عالما بمقدار حصته في تلك الدار فالبيع صحيح إن كان البائع أيضا عالما بمقدار حصته أو مصدقا للمشتري فيما بينه من مقدار حصته، أما إذا كان المشتري لا يعرف الحصة فالبيع غير صحيح سواء أكان البائع يعرف تلك الحصة أم لا يعرفها .
وتحت حكم هذه المادة الصورتان الآتيتان:
الأولى أن يكون العقار جميعه ملكا لإنسان واحد فيبيع ثلثه ويبقي ثلثيه.
الثانية: أن يكون العقار مشتركا بين اثنين لكل منهما النصف مثلا فيبيع أحدهما نصف حصته الشائعة من آخر ففي هاتين الصورتين يصح البيع إلا أنه يشترط عند الطرفين أن يكون المشتري عالما بالحصة وعند الثاني لا يشترط ويصح البيع، ولو كانت الحصة مجهولة..... وعلى ذلك يجوز لمن يملك ملكا مشتركا مشاعا مع آخر أن يبيع نصفه غير المعين من أجنبي وهذا النصف ينصرف إلى ما يملكه البائع من الدار المشتركة يكون البيع صحيحا ونافذا؛ لأن الأولى حمل تصرف الإنسان على الجواز ما أمكن.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:(6/ 263)
وأما بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل فنقول وبالله التوفيق حكم الملك ولاية التصرف للمالك في المملوك باختياره ليس لأحد ولاية الجبر عليه إلا لضرورة ولا لأحد ولاية المنع عنه وإن كان يتضرر به إلا إذا تعلق به حق الغير فيمنع عن التصرف من غير رضا صاحب الحق وغير المالك لا يكون له التصرف في ملكه من غير إذنه ورضاه إلا لضرورة وكذلك حكم الحق الثابت في المحل عرف هذا فنقول للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء سواء كان تصرفا يتعدى ضرره إلى غيره أو لا يتعدى فله أن يبني في ملكه مرحاضا أو حماما أو رحى أو تنورا وله أن يقعد في بنائه حدادا أو قصارا وله أن يحفر في ملكه بئرا أو بالوعة أو ديماسا وإن كان يهن من ذلك البناء ويتأذى به.
وفی المصطلحات الفقھیة(ض:35): 
الحوالة ...فی الشرع عبارة عن تحویل الدین من ذمة الأصیل الی ذمة المحتال علیہ علی سبیل التوثق بہ.
وفی الھدایة (3/136،ط رحمانیہ):
وتصح الحوالة برضا المحیل والمحتال والمحتال علیہ،  أما المحتال فلأن الدین حقہ وھو الذ ی ینتقل بھا والذمم متفاوتة فلا بد من رضاہ  وأما المحتال علیہ فلأنہ یلزمہ الدین ولا لزوم بدون التزامہ .

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

6/7/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے