021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اَفلیئٹ مارکیٹنگ کا حکم
82750اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے جدید مسائل

سوال

انٹرنیٹ پر کی جانے والی (ایفلیئٹ مارکیٹنگ) (Affiliate marketing) حلال ہے یا حرام ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اَفلیئٹ مارکیٹنگ ،جس میں اَفلیئٹر  کسی کمپنی کی پراڈکٹ یا سروس  کے لنک ،ویڈیو ایڈز، بینرایڈز، ٹیکسٹ ایڈز وغیرہ کو اپنی ویب سائٹ ، واٹس اپ گروپ یا جی میل کے ذریعے آگے نشر کر کےاس کی تشہیر کرتا ہے،  درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:

1:  اَفلیئٹ مارکیٹرجس پراڈکٹ یا سروس   کی ایڈ ورٹا ئزنگ کر رہا ہے وہ   شرعا اور قانوناجائز اور حلال ہو۔

2:  اَیڈز    ناجائز مواد   پر مشتمل نہ ہوں،مثلا نامحرم خواتین   کی تصاویر اور میوزک وغیرہ۔

3: اَفلیئٹ مارکیٹنگ پروگرام کے سا تھ کیے گئے معاہدہ میں  ایڈورٹائزنگ کی درج شرائط پر   پورا پورا عمل کیا جائے۔

  4 : مارکیٹنگ میں جھوٹ ، دھوکہ دہی اور جعل سازی سے کا م نہ لیاجائے۔

5: کمیشن متعین رقم یا پراڈکٹ کی قیمت کے متعین فیصد کے بقدر طے شدہ ہو ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 47):
 قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63):
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 560):
وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.
الفتاوى الهندية (4/ 451):
رجل أراد أن يبيع بالمزايدة فأمر رجلا لينادي ثم يبيع صاحبه فنادى ولم يبع قالوا إن بين ذلك وقتا جازت الإجارة وله الأجر المسمى وكذا إن لم يذكر الوقت ولكن أمره أن ينادي كذا صوتا جاز أيضا قال الفقيه أبو الليث - رحمه الله تعالى - لا شيء له لأن العادة فيما بين الناس أنهم لا يعطون الأجر إذا لم يتفق البيع وهو المختار. كذا في الظهيرية.وهكذا في فتاوى قاضي خان.(یستفاد منہ اَنہ یجوز تعلیق استحقاق الاجرۃ علی البیع بعد المناداۃ ٓاذا کان  ھذا الشرط معروفا بین الناس علی القول المختار وھاھو عین مایحدث فی العمولۃ بالتسویق۔از راقم)

نعمت اللہ

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

8/رجب/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نعمت اللہ بن نورزمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے