021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مدعیہ کی قسم اور ایک گواہ کی بنیاد پر کیے گئے عدالت کےفیصلہ کا حکم
82928طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

  سائل کا بیان:

میں نے تین ماہ قبل زینب (فرضی نام ) محترمہ سے نکاح کیا، جو کہ خلع یافتہ ہیں، مجھے بتایا گیا کہ زینب (فرضی نام ) کے پہلے شوہر کو علم ہے کہ زینب (فرضی نام ) نے عدالت سے خلع لیا ہے اور اس نے خاموشی اختیار کر لی اور رشتہ داروں سے کہا کہ سامان واپس لے جائیں، اس صورت میں اس فیصلہ پر شوہر کی رضامندی ظاہر ہوتی تھی۔ لیکن اب کی صورتِ حال یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں  

  سائل کا بیان:

میں نے تین ماہ قبل زینب (فرضی نام ) محترمہ سے نکاح کیا، جو کہ خلع یافتہ ہیں، مجھے بتایا گیا کہ زینب (فرضی نام ) کے پہلے شوہر کو علم ہے کہ زینب (فرضی نام ) نے عدالت سے خلع لیا ہے اور اس نے خاموشی اختیار کر لی اور رشتہ داروں سے کہا کہ سامان واپس لے جائیں، اس صورت میں اس فیصلہ پر شوہر کی رضامندی ظاہر ہوتی تھی۔ لیکن اب کی صورتِ حال یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں  زینب (فرضی نام ) کو طلاق نہیں دی اور جامعہ اشرفیہ لاہور سے ایک فتوی بھی لیا ہوا ہے، جو ساتھ لگا دیا ہے، جیسے ہی مجھے پتہ چلا میں نے اپنی بیوی زینب (فرضی نام ) کو اس کے  گھر بھیج دیا، سوال یہ ہے کہ کیا یہ شادی جائز ہے یا نہیں۔ اور اگر جائز نہیں تو آگے میرے لیے  کیا حکم ہے؟ میں نے جب اس بارے میں زینب (فرضی نام ) محترمہ سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ دوسری طلاق کے بعد جون 2022ء میں وہ اپنے شوہر کے پاس گئی تھی اور ان کے درمیان تعلقات بھی قائم ہوئے تھے، پھر اس کے بعد اس کے شوہر نے اسے طلاق نہیں دی تھی، البتہ اس نے عدالت سے خلع لیا ہے، جس پر اس کے شوہر نے انکار کر دیا ہے کہ اس کو خلع کا علم نہیں ہے۔ ازراہ کرم فتوی دے کر میری رہنمائی فرمائیں۔

سائل کی بیوی کا بیان:

ایک فتویٰ دارالافتاء جامعہ اشرفیہ کا موصول ہوا، جو سفید جھوٹ اور دھوکہ پر مبنی سوال کے جواب میں تھا۔ پڑھ کر دلی دکھ اور صدمہ ہوا۔ زید (فرضی نام )ہاشمی نے لالچ کی بناء پر کئی بار زینب (فرضی نام ) محترمہ کو مجبور کیا کہ وہ اپنی ماں اور بھائیوں سے پیسے لا کر دے۔ زینب (فرضی نام ) محترمہ کی دراز کا لاک توڑ کر چیک بک چوری کرکے زینب (فرضی نام ) محترمہ کے جعلی دستخط کر کے کسی پارٹی کو چیک بھی جاری کئے،بار بار گھر سے نکالنا اور واپس آنے پر طلاق کی دھمکی دینا،مار پیٹ کرنا ،جس میں بیلٹ سے مارنا بھی شامل ہے،ذہنی اذیت دینا، مثلا"چھ سال تمہارے ساتھ گزارے ہیں اب چھ سال اس کے ساتھ گزاروں گا"۔جس گھر میں رکھا اس کی چابی اس کے بھائیوں کے پاس بھی تھی۔جب  چاہتے بلا اجازت دروازہ کھول کر آ جاتے۔ اس طرح کے بے شمار واقعات و معاملات کا سامنا رہا۔ زید (فرضی نام )ہاشمی نے جھوٹ بیان کر کے فتویٰ لیا ہے، وہ اس فتویٰ کو دوسروں کی شخصیت مجروح کرنے اور دوسروں کو مزید دھوکہ دینے کیلئے استعمال کررہا ہے۔ اسی وجہ سے ضرورت محسوس ہوئی کہ تھوڑی سی وضاحت کے ساتھ حقائق پیشِ خدمت کردئیے جائیں؛ تاکہ فتویٰ حقائق کی بنیاد پر لیا جاسکے۔

مسمی زید (فرضی نام )ہاشمی ایک جھوٹا اور مکار اور لالچی شخص ہے، جس نے نکاح سے پہلے علیحدہ گھر سمیت بے شمار جھوٹے وعدے کئے تھے، اس میں زید (فرضی نام )ہاشمی کے گھر والے بھی برابر کے شریک تھے۔ نکاح کے کچھ عرصہ بعد ہی معاملات بگڑنے شروع ہوگئے اور معلوم ہوا کہ زید (فرضی نام )ہاشمی کا کسی دوسری عورت کے ساتھ معاشقہ ہے اور اس بات کا علم زید (فرضی نام )ہاشمی کے گھر والوں کو بھی تھا۔مار کر گھر سے یہ کہہ کہ نکالا کہ اسی گھر اسی کمرے میں اسے لے کرآؤں گا۔ کچھ عرصے بعد پھر بیوی پر دوسری شادی کے لیے دباؤڈالا اور طلاق کی دھمکی دی۔جس پر زینب (فرضی نام ) محترمہ نےاجازت دے دی، لیکن جس دن اس کے گھر والے رشتہ دیکھ کر آئے اس سے اگلی صبح ہی زید (فرضی نام )ہاشمی نے زینب (فرضی نام ) محترمہ سے کہا "میری طرف سے تم فارغ ہو"! اور وضاحت مانگنے پر عمران ہاشمی نے کہا "ہاں میں نے طلاق کی نیت سے کہا ہے۔" پہلی طلاق ہوئی، (اس کی وضاحت اس تحریر کے ساتھ منسلک ایگریمنٹ میں موجود ہے۔) ایگریمنٹ کے باوجود کچھ عرصہ گزرنے کے بعد زید (فرضی نام )ہاشمی نے عقدثانی کر لیا۔ اور زینب (فرضی نام ) محترمہ کواپنے دوسرے نکاح کے بعد دوسری طلاق دی اور زینب (فرضی نام ) محترمہ کو اٹھتے بیٹھتے کہنا شروع کر دیا کہ گھر خالی کرو میں دو گھروں کا خرچہ نہیں چلا سکتا۔ گھر خالی کرو میں نے گروی رکھوانا ہے۔اپنی بھانجی کی پیدائش پر زینب (فرضی نام ) محترمہ جونہی میکے گئی۔ زید (فرضی نام )ہاشمی نے دوسری بیوی کے ساتھ مل کر وہ گھر فی الفور پٹھانوں کو کرایہ پر دے دیا۔نیز زینب (فرضی نام ) محترمہ کے زیراستعمال گھر کے سامان میں سے بیشتر سامان دوسری بیوی اور اس کے بھائی کو دے دیا۔ زینب (فرضی نام ) محترمہ ایک سال والدین کے گھر بیٹھی رہی۔پھر اس نےبار بار کہا کہ کرایہ کا گھر خالی کروائیں یا مجھے دوسری بیوی کے ساتھ ہی ایک کمرے میں رکھ لیں۔ کہا دوسری کو بھائی کے گھر میں رکھا ہوا ہے انہوں نے کہا ہے زینب (فرضی نام ) کو یہاں نہیں رکھنا۔طلاق کے مطالبے پر عمران (جو کہ رشتہ دار ہے) نے واضح کہا کہ "میں کیوں بُرا بنوں جاؤعدالت سے خلع لے لو" (تاکہ حق مہر ادا نہ کرنا پڑے) زید (فرضی نام )ہاشمی کی جانب سے نان و نفقہ کے نام پہ بھی کھوٹی کوڑی نہیں دی گئی۔ایک سال گزرنے پر زینب (فرضی نام ) محترمہ نے خلع کیلئے عدالت سے رجوع کیا۔ جس کا زید (فرضی نام )ہاشمی کو وکیل کے ذریعے۔ رشتہ داروں کے ذریعے اور اخبار اشتہار کے ذریعے(جو بذریعہ واٹس ایپ بھی اس نے اور اس کے بہن بھائیوں،کزن نے بھی  دیکھ لیا تھا اور اشتہار دیکھنے کے اگلے روز ایک جنازے پر عمران نے کزنز سے خود کہا کہ میرے سسرال والوں نے مجھ پر کیس کردیا ہے)

عدالت کے فیصلے کے بعد بھی یونین کونسل سے تین ماہ تک ہر ماہ مصالحت کے لیے فریقین کو نوٹس بھیجے گئے۔زینب (فرضی نام ) محترمہ ہر ماہ گئی۔زید (فرضی نام )ہاشمی کی طرف سے خاموشی اختیار کی گئی۔بالاخر تنسیخ نکاح کا سرٹیفکیٹ جاری ہونے پر زینب (فرضی نام ) محترمہ نے رشتہ داروں کے ذریعے سامانِ جہیز کی واپسی کا مطالبہ کیا، جس پر زید (فرضی نام )ہاشمی نے یہ الفاظ کہے۔ "لسٹ بناکر دے دو، اپنا سامان اٹھالو۔"  اور پیغام بھجوایا کہ "زینب (فرضی نام ) یا زینب (فرضی نام ) کے گھر سے کوئی نہ آئے۔" عدالت سے خلع کا فیصلہ ہونے تک عمران ہاشمی عدالت سے غیر حاضر رہا اور جان بوجھ کر فیصلہ ہونے کا منتظر رہا اور اب جب کہ زینب (فرضی نام ) محترمہ کا دوسری جگہ نکاح ہوچکا ہے تو یہ دارالافتاء جامعہ اشرفیہ سے جھوٹ پر مبنی فتویٰ لے کر پورے خاندان میں بدنام کرنے اور گھر برباد کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

سوال1۔ یہ کہ زینب (فرضی نام ) محترمہ کے دو طلاقوں کے بعد خلع کے فیصلے کے بعد دوسرے نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جب کہ جامعہ الرشید کے فتوے کے مطابق "اگر سابق شوہر کے علم میں خلع کا کیس ہو اور وہ خاموشی اختیار کرے تو یہ خاموشی اس کی رضامندی سمجھی جائے گی"

سوال2۔ اب سوال یہ ہے کہ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں پہلے فتویٰ کی کیا حیثیت ہے جو جھوٹ اور دھوکہ کی بنیاد پر لیا گیا؟زید (فرضی نام )ہاشمی جو جھوٹ بول کر دارالافتاء کو گمراہ کرکے فتویٰ لے کر شریف خاندان کو بدنام کرنے کی کوشش کررہا ہے، اس کی کیا شرعی حیثیت ہے؟

وضاحت: سائلہ نے بتایا کہ پہلی طلاق دینے کے بعد تجدید نکاح ہوا اور دوسری طلاق دینے کے بعد شوہر نے عدت کے دوران رجوع کر لیا تھا۔نیز اس نے یہ بھی بتایا کہ عدالت میں دعوی دائر کرتے وقت میں نے اپنا حلفیہ بیان جمع کروایا تھا اور میرے دعوی پر میرے ایک کزن بطور گواہ پیش ہوئے تھے۔

 کو طلاق نہیں دی اور جامعہ اشرفیہ لاہور سے ایک فتوی بھی لیا ہوا ہے، جو ساتھ لگا دیا ہے، جیسے ہی مجھے پتہ چلا میں نے اپنی بیوی زینب (فرضی نام ) کو اس کے  گھر بھیج دیا، سوال یہ ہے کہ کیا یہ شادی جائز ہے یا نہیں۔ اور اگر جائز نہیں تو آگے میرے لیے  کیا حکم ہے؟ میں نے جب اس بارے میں زینب (فرضی نام ) محترمہ سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ دوسری طلاق کے بعد جون 2022ء میں وہ اپنے شوہر کے پاس گئی تھی اور ان کے درمیان تعلقات بھی قائم ہوئے تھے، پھر اس کے بعد اس کے شوہر نے اسے طلاق نہیں دی تھی، البتہ اس نے عدالت سے خلع لیا ہے، جس پر اس کے شوہر نے انکار کر دیا ہے کہ اس کو خلع کا علم نہیں ہے۔ ازراہ کرم فتوی دے کر میری رہنمائی فرمائیں۔

سائل کی بیوی کا بیان:

ایک فتویٰ دارالافتاء جامعہ اشرفیہ کا موصول ہوا، جو سفید جھوٹ اور دھوکہ پر مبنی سوال کے جواب میں تھا۔ پڑھ کر دلی دکھ اور صدمہ ہوا۔ زید (فرضی نام )ہاشمی نے لالچ کی بناء پر کئی بار زینب (فرضی نام ) محترمہ کو مجبور کیا کہ وہ اپنی ماں اور بھائیوں سے پیسے لا کر دے۔ زینب (فرضی نام ) محترمہ کی دراز کا لاک توڑ کر چیک بک چوری کرکے زینب (فرضی نام ) محترمہ کے جعلی دستخط کر کے کسی پارٹی کو چیک بھی جاری کئے،بار بار گھر سے نکالنا اور واپس آنے پر طلاق کی دھمکی دینا،مار پیٹ کرنا ،جس میں بیلٹ سے مارنا بھی شامل ہے،ذہنی اذیت دینا، مثلا"چھ سال تمہارے ساتھ گزارے ہیں اب چھ سال اس کے ساتھ گزاروں گا"۔جس گھر میں رکھا اس کی چابی اس کے بھائیوں کے پاس بھی تھی۔جب  چاہتے بلا اجازت دروازہ کھول کر آ جاتے۔ اس طرح کے بے شمار واقعات و معاملات کا سامنا رہا۔ زید (فرضی نام )ہاشمی نے جھوٹ بیان کر کے فتویٰ لیا ہے، وہ اس فتویٰ کو دوسروں کی شخصیت مجروح کرنے اور دوسروں کو مزید دھوکہ دینے کیلئے استعمال کررہا ہے۔ اسی وجہ سے ضرورت محسوس ہوئی کہ تھوڑی سی وضاحت کے ساتھ حقائق پیشِ خدمت کردئیے جائیں؛ تاکہ فتویٰ حقائق کی بنیاد پر لیا جاسکے۔

مسمی زید (فرضی نام )ہاشمی ایک جھوٹا اور مکار اور لالچی شخص ہے، جس نے نکاح سے پہلے علیحدہ گھر سمیت بے شمار جھوٹے وعدے کئے تھے، اس میں زید (فرضی نام )ہاشمی کے گھر والے بھی برابر کے شریک تھے۔ نکاح کے کچھ عرصہ بعد ہی معاملات بگڑنے شروع ہوگئے اور معلوم ہوا کہ زید (فرضی نام )ہاشمی کا کسی دوسری عورت کے ساتھ معاشقہ ہے اور اس بات کا علم زید (فرضی نام )ہاشمی کے گھر والوں کو بھی تھا۔مار کر گھر سے یہ کہہ کہ نکالا کہ اسی گھر اسی کمرے میں اسے لے کرآؤں گا۔ کچھ عرصے بعد پھر بیوی پر دوسری شادی کے لیے دباؤڈالا اور طلاق کی دھمکی دی۔جس پر زینب (فرضی نام ) محترمہ نےاجازت دے دی، لیکن جس دن اس کے گھر والے رشتہ دیکھ کر آئے اس سے اگلی صبح ہی زید (فرضی نام )ہاشمی نے زینب (فرضی نام ) محترمہ سے کہا "میری طرف سے تم فارغ ہو"! اور وضاحت مانگنے پر عمران ہاشمی نے کہا "ہاں میں نے طلاق کی نیت سے کہا ہے۔" پہلی طلاق ہوئی، (اس کی وضاحت اس تحریر کے ساتھ منسلک ایگریمنٹ میں موجود ہے۔) ایگریمنٹ کے باوجود کچھ عرصہ گزرنے کے بعد زید (فرضی نام )ہاشمی نے عقدثانی کر لیا۔ اور زینب (فرضی نام ) محترمہ کواپنے دوسرے نکاح کے بعد دوسری طلاق دی اور زینب (فرضی نام ) محترمہ کو اٹھتے بیٹھتے کہنا شروع کر دیا کہ گھر خالی کرو میں دو گھروں کا خرچہ نہیں چلا سکتا۔ گھر خالی کرو میں نے گروی رکھوانا ہے۔اپنی بھانجی کی پیدائش پر زینب (فرضی نام ) محترمہ جونہی میکے گئی۔ زید (فرضی نام )ہاشمی نے دوسری بیوی کے ساتھ مل کر وہ گھر فی الفور پٹھانوں کو کرایہ پر دے دیا۔نیز زینب (فرضی نام ) محترمہ کے زیراستعمال گھر کے سامان میں سے بیشتر سامان دوسری بیوی اور اس کے بھائی کو دے دیا۔ زینب (فرضی نام ) محترمہ ایک سال والدین کے گھر بیٹھی رہی۔پھر اس نےبار بار کہا کہ کرایہ کا گھر خالی کروائیں یا مجھے دوسری بیوی کے ساتھ ہی ایک کمرے میں رکھ لیں۔ کہا دوسری کو بھائی کے گھر میں رکھا ہوا ہے انہوں نے کہا ہے زینب (فرضی نام ) کو یہاں نہیں رکھنا۔طلاق کے مطالبے پر عمران (جو کہ رشتہ دار ہے) نے واضح کہا کہ "میں کیوں بُرا بنوں جاؤعدالت سے خلع لے لو" (تاکہ حق مہر ادا نہ کرنا پڑے) زید (فرضی نام )ہاشمی کی جانب سے نان و نفقہ کے نام پہ بھی کھوٹی کوڑی نہیں دی گئی۔ایک سال گزرنے پر زینب (فرضی نام ) محترمہ نے خلع کیلئے عدالت سے رجوع کیا۔ جس کا زید (فرضی نام )ہاشمی کو وکیل کے ذریعے۔ رشتہ داروں کے ذریعے اور اخبار اشتہار کے ذریعے(جو بذریعہ واٹس ایپ بھی اس نے اور اس کے بہن بھائیوں،کزن نے بھی  دیکھ لیا تھا اور اشتہار دیکھنے کے اگلے روز ایک جنازے پر عمران نے کزنز سے خود کہا کہ میرے سسرال والوں نے مجھ پر کیس کردیا ہے)

عدالت کے فیصلے کے بعد بھی یونین کونسل سے تین ماہ تک ہر ماہ مصالحت کے لیے فریقین کو نوٹس بھیجے گئے۔زینب (فرضی نام ) محترمہ ہر ماہ گئی۔زید (فرضی نام )ہاشمی کی طرف سے خاموشی اختیار کی گئی۔بالاخر تنسیخ نکاح کا سرٹیفکیٹ جاری ہونے پر زینب (فرضی نام ) محترمہ نے رشتہ داروں کے ذریعے سامانِ جہیز کی واپسی کا مطالبہ کیا، جس پر زید (فرضی نام )ہاشمی نے یہ الفاظ کہے۔ "لسٹ بناکر دے دو، اپنا سامان اٹھالو۔"  اور پیغام بھجوایا کہ "زینب (فرضی نام ) یا زینب (فرضی نام ) کے گھر سے کوئی نہ آئے۔" عدالت سے خلع کا فیصلہ ہونے تک عمران ہاشمی عدالت سے غیر حاضر رہا اور جان بوجھ کر فیصلہ ہونے کا منتظر رہا اور اب جب کہ زینب (فرضی نام ) محترمہ کا دوسری جگہ نکاح ہوچکا ہے تو یہ دارالافتاء جامعہ اشرفیہ سے جھوٹ پر مبنی فتویٰ لے کر پورے خاندان میں بدنام کرنے اور گھر برباد کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

سوال1۔ یہ کہ زینب (فرضی نام ) محترمہ کے دو طلاقوں کے بعد خلع کے فیصلے کے بعد دوسرے نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جب کہ جامعہ الرشید کے فتوے کے مطابق "اگر سابق شوہر کے علم میں خلع کا کیس ہو اور وہ خاموشی اختیار کرے تو یہ خاموشی اس کی رضامندی سمجھی جائے گی"

سوال2۔ اب سوال یہ ہے کہ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں پہلے فتویٰ کی کیا حیثیت ہے جو جھوٹ اور دھوکہ کی بنیاد پر لیا گیا؟زید (فرضی نام )ہاشمی جو جھوٹ بول کر دارالافتاء کو گمراہ کرکے فتویٰ لے کر شریف خاندان کو بدنام کرنے کی کوشش کررہا ہے، اس کی کیا شرعی حیثیت ہے؟

وضاحت: سائلہ نے بتایا کہ پہلی طلاق دینے کے بعد تجدید نکاح ہوا اور دوسری طلاق دینے کے بعد شوہر نے عدت کے دوران رجوع کر لیا تھا۔نیز اس نے یہ بھی بتایا کہ عدالت میں دعوی دائر کرتے وقت میں نے اپنا حلفیہ بیان جمع کروایا تھا اور میرے دعوی پر میرے ایک کزن بطور گواہ پیش ہوئے تھے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی صورتِ حال کے مطابق درج ذیل دو وجہ سے عدالتی فیصلہ شرعاً معتبر اور نافذ ہے:

پہلی وجہ:

پہلی وجہ یہ کہ عرصہ دراز سے میاں بیوی کے درمیان نباہ نہ ہونے کی بنیاد پر جب شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا گیا تو اس نے کہا:"میں کیوں برا بنوں؟ جاؤ  عدالت سے خلع لے لو" اس سے بظاہر مہر معاف ہونے کے علاوہ شوہر کا یہ مقصد معلوم ہوتا ہے کہ عورت خود عدالت سے خلع لے لے گی تو کل مجھے کوئی برادری کا فرد یہ نہیں کہہ سکے گا کہ تم نے کیوں عورت کو چھوڑا؟ اس وقت اگر شوہر خلع پر راضی نہ ہوتا تو وہ فورا کہتا کہ میں طلاق یا خلع نہیں دوں گا۔ نیز پھر عورت کے عدالت سے فیصلہ لینے کے بعد جب اس سے جہیز کے سامان کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا تو اس نے کہا: "لسٹ بنا کر دے دو اور اپنا سامان اٹھا لو" اور ساتھ پیغام بھجوایا کہ: "سامان لینے کے لیے سدرہ کے گھر سے کوئی نہ آئے" اگر شوہر کو خلع کا علم نہیں تھا یا وہ عدالتی فیصلہ پر راضی نہیں تھا تو وہ اس موقع پر بھی کہتا کہ میں نے تو خلع نہیں دیا تو پھر سامان کیوں اٹھا رہے ہو۔ خلاصہ یہ کہ ان سب قرائن سے دلالتا شوہر کی خلع کے عدالتی فیصلہ پر رضامندی معلوم ہوتی ہے اور شرعاً خلع زوجین کی باہمی رضامندی سے درست اور نافذ ہوتا ہے۔

 دوسری وجہ:

دوسری وجہ یہ کہ اگر بالفرض شوہر خلع دینے پر راضی نہیں تھا تو بھی جب عورت نے شوہر کے نان ونفقہ (اگرچہ یہاں فسخِ نکاح کی دوسری وجہ یعنی مارپیٹ کرنا بھی موجود ہے،جیسا کہ سوال میں تصریح ہے) نہ دینےکی بنیاد پر عدالت میں فسخِ نکاح کے لیے دعوی دائر کیا اور اپنے دعوی کے ثبوت کے لیےاپنا حلفیہ بیان اور کزن کو بطورِ گواہ پیش کیا تھا، تو اس صورتِ حال میں عدالت کی طرف سے جاری کیا گیا فیصلہ مالکیہ کے مسلک (ان کی بعض عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ حدود کے علاوہ حقوق میں مدعی کی قسم اور ایک گواہ کی بنیاد پر فیصلہ کرنا درست ہے، اگرچہ مدعی علیہ عدالت میں حاضر نہ ہو، کیونکہ ان کے نزدیک اگر مدعی اپنے دعوی پر ثبوت پیش کر دے تو قضاء علیٰ الغائب جائز ہے اور یہاں مدعی کی قسم اور ایک گواہ ان کے نزدیک ایسے معاملات میں ثبوت کے لیے حجت تامہ ہے، لہذاان کے ہاں اس صورت میں قضاء علیٰ الغائب بھی جائز ہو گا۔) کے مطابق درست ہے، کیونکہ شوہر کا نان ونفقہ دینے میں کوتاہی کرنے، مارپیٹ کرنے اور پھر عدالتی نوٹس کاعلم ہونے کے باوجود عدالت میں حاضرنہ ہونے سے اس کا تعنّت (ہٹ دھرمی کی بناء پر عورت کو لٹکائے رکھنا) ثابت ہوتا ہے اور شوہر کی طرف سےمدعیہ کی قسم اور ایک شخص کی گواہی کی بنیاد پر تعنّت کے ثبوت کی صورت میں اگرچہ حنفیہ کے نزدیک عدالت کو فسخِ نکاح کا حق حاصل نہیں ہوتا، مگر بعض مالکیہ کے ہاں چونکہ اس کی اجازت ہے اور پاکستانی قانون میں قاضی/جج کسی بھی مذہب کے مطابق فیصلہ کر دے تو وہ درست ہوتا ہے، اور ضرورت کے پیشِ نظر مالکیہ کے مذہب پر عمل کرنا جائز ہے، اس لیے یہ فیصلہ شرعا نافذ اور درست ہے، البتہ اس صورت میں اس فیصلے کو خلع کی بجائے فسخِ نکاح پر محمول کیا جائے گا، کیونکہ خلع کے لیے زوجین کی باہمی رضامندی ضروری ہے۔

                    لہذا مذکورہ بالا وجوہ کی بناء پر عدالت سے فیصلہ جاری ہونے کی تاریخ سے فریقین کے درمیان نکاح ختم ہو چکا ہے اور اسی دن سے عورت کی عدت بھی شروع ہو چکی تھی، عدت مکمل کرنے کے بعد عورت کا دوسری جگہ نکاح کرنا شرعاً درست ہے اور آپ دونوں میاں بیوی کا اکٹھے رہنا شریعت کی رُو سے جائز ہے اور خاتون کے سابقہ شوہر کو اب اس پر کسی قسم کا حق حاصل نہیں ہے۔

کسی بھی مسلمان مرد یا عورت کی عزت کوناحق پامال کرنا شرعاً حرام اور ناجائز ہے، اس پر قرآن وسنت میں شدید وعیدیں اور تنبیہ کی گئی ہے، چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجة الوداع کے خطبہ میں اس بات پر تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، جس کا ترجمہ درج ذیل ہے:

 آپ صلی اللہ علیہ نے لوگوں سے سوال کیا: آج کون سا دن ہے؟ لوگ خاموش رہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا کیا یہ قربانی کا دن نہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کیوں نہیں! آپ علیہ السلام نے پھر پوچھا کہ یہ کو نسا مہینہ ہے؟ لوگ خاموش رہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کیوں نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک تمہارے خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہیں جیسےتمہارے آج کے دن، اس مہینے  اور اس شہر کی حرمت ہے،  پس ہر حاضر شخص یہ بات غائب تک پہنچا دے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےاس پاک ارشادکا مطلب یہ ہے کہ جیسے  تمہارے نزدیک قربانی کے دن، ذی الحجہ کے مہینے اور شہر مکہ مکرمہ کی حرمت اور احترام ہے اسی طرح تم پر مسلمانوں کی جان، مال او رعزت وآبرو کی حرمت اور احترام واجب ہے۔  لہذا  اگر سوال میں ذکر کیا گیا بیان درست ہے تو عمران علی ہاشمی کا غلط بیانی کر کے دارالافتاء سے اپنے مقصد کافتوی لے کر آپ اور آپ کے خاندان کو بدنام کرنا اور ان کی عزت کو داغدار کرنے کی کوشش کرنا بلاشبہ ناجائز اور گناہ کبیرہ ہے، جس پر اس کو اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ واستغفار کرنا اور آئندہ کے لیے اس طرح کے قبیح فعل سے مکمل طور پر اجتنا ب کرنا لازم ہے۔  

حوالہ جات
بداية المجتهد ونهاية المقتصد (4/ 252) دار الحديث – القاهرة:
وأما ثبوت الحق على المدعى عليه بنكوله فإن الفقهاء أيضا اختلفوا في ذلك، فقال مالك، والشافعي وفقهاء أهل الحجاز وطائفة من العراقيين: إذا نكل المدعى عليه لم يجب للمدعي شيء بنفس النكول، إلا أن يحلف المدعي أو يكون له شاهد واحد. وقال أبو حنيفة وأصحابه وجمهور الكوفيين: يقضي للمدعي على المدعى عليه بنفس النكول، وذلك في المال بعد أن يكرر عليه اليمين ثلاثا.......... ومن حجة مالك أن الحقوق عنده إنما تثبت بشيئين: إما بيمين وشاهد، وإما بنكول وشاهد، وإما بنكول ويمين.
التوضيح في شرح مختصر ابن الحاجب (7/ 562) مركز نجيبويه للمخطوطات وخدمة التراث:
وكل جرح فيه قصاص فإنه لا يقتص فيه بشاهد ويمين، وكل جرح لا قصاص فيه مما هو متلف كالجائفة والمأمومة وشبههمافالشاهد واليمين فيهما جائزة؛ لأن العمد والخطأ فيها إنما هو أموال. وفي الديات: من أقام شاهدا عدلا على جرح عمدا أو خطأ فليحلف معه يمينا واحدة، ويقتص في العمد ويأخذ العقل في الخطأ، قيل لابن القاسم: لم قال مالك ذلك في جراح العمد وليست بمال؟ فقال: كلمت مالكا في ذلك فقال: إنه لشيء استحسناه وما سمعنا فيه شيئا، وقد تبين لك بهذا السياق رجحان ما في الشهادات، وزاد في البيان ثالثا بأنه يقضى بالشاهد مع اليمين فيما صغر من الجراح لا فيما عظم منها كقطع اليد وشبهه، وهو قول ابن الماجشون وروايته، واختاره سحنون، ونص سحنون على أن المرأتين كالعدل في القصاص.
المختصر الفقهي لابن عرفة (9/ 383) مؤسسة خلف أحمد الخبتور للأعمال الخيرية:
قوله باليمين مع الشاهد ظاهرة أنها من جهة واحدة..........ابن حبيب: روى مطرف يجوز اليمين مع الشاهد في الحقوق والجراح، عمدها وخطئها، وفي المشامتة ما عدا الحدود.
الأم للشافعي (7/ 207) دار المعرفة، بيروت:
[باب في الأقضية] (قال الشافعي - رحمه الله تعالى -) : أخبرنا مالك عن جعفر بن محمد عن أبيه «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قضى باليمين مع الشاهد» (قال الشافعي - رحمه الله تعالى -) : فأخذنا نحن وأنتم به.
المجموع شرح المهذب (20/ 257) دار الفكر، بيروت:
وما يثبت بالشاهد والمرأتين يثبت بالشاهد واليمين، لما روى عمرو بن دينار عن أبن عباس رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى بيمين وشاهد، قال عمرو ذلك في الاموال واختلف أصحابنا في الوقف فقال أبو إسحاق وعامة أصحابنا يبنى على القولين فإن قلنا ان الملك للموقوف عليه قضى فيه بالشاهد واليمين لانه نقل ملك فقضى فيه بالشاهد واليمين كالبيع، وان قلنا انه ينتقل إلى الله عز وجل لم يقض فيه بالشاهد واليمين لانه ازالة ملك إلى غير الآدمى فلم يقض فيه بالشاهد واليمين كالعتق.
الحاوي الكبير (17/ 8) دار الكتب العلمية، بيروت:
والضرب الثاني: ما كان من حقوق الآدميين، وهي تنقسم ثلاثة أقسام تختلف في الجنس والعدد:
أحدها: وهو أوسعها، وهو ما يقبل فيه شاهدان وشاهد وامرأتان، وشاهد ويمين، وهو المال وما كان مقصوده المال، لقول الله تعالى: {واستشهدوا شهيدين من رجالكم فإن لم يكونا رجلين فرجل وامرأتان} [البقرة: 282] وقضى رسول الله - صلى الله عليه وسلم  - بالشاهد واليمين.
والقول الثاني: ما يقبل فيه شهادة النساء منفردات، وهو الولادة والاستهلال والرضاع، وما لا يجوز أن يطلع عليه الرجال الأجانب من العيوب المستورة بالعورة، فيقبل فيه أربع نسوة، وجوز أبو حنيفة في الولادة قبول شهادة القابلة وحدها، والكلام معه يأتي.
فإن شهد بذلك شاهدان أو شاهد وامرأتان قبل، لأن شهادة الرجال أغلظ، ولا يقبل فيه شاهد ويمين.
والقسم الثاني: ما يقبل فيه شهادة رجلين ولا يقبل فيه شهادة النساء بحال، وهو كل ما لم يكن مالا ولا المقصود منه المال، ويجوز أن يطلع عليه الرجال الأجانب كالنكاح والطلاق، والخلع، والرجعة، والقصاص، والقذف، والعتق والنسب، والكتابة، والتدبير، وعقد الوكالة والوصية، فلا يقبل في جميع ذلك شهادة النساء. وبه قال مالك والأوزاعي والنخعي وأكثر الفقهاء.
وقال أبو حنيفة وأصحابه وسفيان الثوري: أقبل في جميع ذلك شهادة رجل وامرأتين إلا في القصاص والقذف استدلالا بقول الله تعالى: {واستشهدوا شهيدين من رجالكم فإن لم يكونا رجلين فرجل وامرأتان} [البقرة: 282] فكان محمولا على عمومه في كل حق إلا ما خصه دليل.
المجموع شرح المهذب (16/ 380) دار الفكر،بيروت:
إذا اختلف الزوجان في قدر المهر أو في أجله تحالفا، لانه عقد معاوضة فجاز أن يثبت التخالف في قدر عوضه وأجله كالبيع، وإذا تحالفا لم ينفسخ النكاح، لان التحالف يوجب الجهل بالعوض، والنكاح لا يبطل بجهالة العوض، ويجب مهر المثل، لأن
المسمى سقط وتعذر الرجوع إلى المعوض فوجب بدله، كما لو تحالفا في الثمن بعد هلاك المبيع في يد المشترى.
الموسوعة الفقهية الكويتية (1/ 236) وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية،الكويت:
اختلف الفقهاء في القضاء باليمين مع الشاهد:
فذهب الأئمة مالك والشافعي وأحمد وأبو ثور والفقهاء السبعة المدنيون إلى أنه يقضى باليمين مع الشاهد في الأموال وما يئول إليها دون غيرها.
وذهب الإمام أبو حنيفة والثوري والأوزاعي وجمهور أهل العراق إلى أنه لا يقضى باليمين مع الشاهد في شيء.
وقد استدل الإمام مالك ومن معه بحديث ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى باليمين مع الشاهد.
صحيح البخاري (1/ 24) دار طوق النجاة:
عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه، ذكر النبي صلى الله عليه وسلم قعد على بعيره، وأمسك إنسان بخطامه - أو بزمامه - قال: «أي يوم هذا»، فسكتنا حتى ظننا أنه سيسميه سوى اسمه، قال: «أليس يوم النحر» قلنا: بلى، قال: «فأي شهر هذا» فسكتنا حتى ظننا أنه سيسميه بغير اسمه، فقال: «أليس بذي الحجة» قلنا: بلى، قال: «فإن دماءكم، وأموالكم، وأعراضكم، بينكم حرام، كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، ليبلغ الشاهد الغائب، فإن الشاهد عسى أن يبلغ من هو أوعى له منه»

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

17/رجب المرجب 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے