021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وصیت کاشرعی طریقہ
82971وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

سلام مسنون کے بعد عرض ہے کہ مندرجہ ذيل ميرا وصیت نامہ ہے۔ آپ حضرات شریعت مطہرہ کی روشنی میں  یہ فرمائیں  کہ  میرا وصیت نامہ قرآن و حدیث اور شریعت کےمطابق ہے؟ اگر اس میں  کوئی بات خلاف شرع ہو تو از راہ کرم میری اصلاح فرمادیں اور یہ فرمادیں کہ میرے اس وصیت نامہ میں میرا کوئی رشتہ دار جیسے میرا کوئی بھائی یا بہن یا اولاد و اہلیہ جو کہ میرے بعد میرے ورثہ میں شامل ہوں گےکوئی اعتراض کرنے کے مجاز ہیں  یا نہیں؟وصیت نامہ یہ ہے:

  1  : میرے  مرنے کے بعد ایک حصہ اللہ کے نام کا امام صاحب کو دیا جائے۔ اگر فوراً نہیں دے سکتے تو ایک مکان کا کرایہ جو کہ ڈاکٹر عابدہ کے پاس سےآتا ہے وہ امام صاحب کو دیا جائے۔امام صاحب کا نام مفتی ابو اسامہ امام و خطیب جامع مسجد محمدی (FBE

2   : دوسری دکان کا کرایہ ورثاء اپنے استعمال میں لے لیں۔

 3  :اگر میں عمرہ پر نہ جا سکا تو میرے عمرے کی رقم مسجد کی تعمیر میں دیدی جائے۔

4    : میری جاد BC میرے چھوٹے بھائی سلیم کے پاس ڈلی ہوئی  ہے،اس میں سے ایک BC میں لے چکا ہوں، دوسری BC ڈاکٹر عابدہ کو دی جائے ،تیری BC کاشف شمس کو دی جائے چوتھی  BC مسجد میں دی جائے۔ BC ایک لاکھ کی ہے ، میرے مرنے کے بعد BC مکمل کی جائے ،اس وصیت نامے کے دو گواہ ہوں گے: سلیم راحت   شمسی اورزاهد على صديق۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ شریعت میں وصیت کااصول یہ ہےکہ اگر کسی کے ورثا ء محتاج اور فقیر ہیں تو ایسی صورت میں وصیت نہ کرنا زیادہ باعث ثواب ہے، لیکن اگر وہ مالدار ہیں تو مال کے ایک تہائی تک وصیت کرنا  جائز  ہے ،تہائی سے زیاد کی وصیت صحیح نہیں۔ مزید یہ کہ  تہائی مال میں  متعین حصہ کی غیر وارث کے لیے  وصیت کرنا جائز ہے جس کا پورا کرنا ورثاء پر لازم ہے،لیکن اگر ایک تہائی سے زیادہ میں وصیت کی یا کسی وارث کے لیے وصیت کی تو وہ ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگی جس کا  پوراکرنا ورثا ءپر شرعا لازم نہیں ہوگا۔

 صور ت مسؤلہ میں پہلی شق میں امام صاحب(مفتی ابواسامہ) کے لیےکی گئی وصیت کی مقدار معلوم نہیں لہذا اس کی تعیین کی جائے ،  دوسری  شق میں ورثاء کےلیے وصیت کی ہے جودرست نہیں ہےاوراس کی ضرورت بھی نہیں ،کیونکہ وصیت سے بچا ہوا مال بالآخر  ورثاء کو ہی ملنا ہے، لہذا اس شق کو ختم کیا جائے ، تیسری اور چوتھی شق درست ہے بشرطیکہ وہ ترکہ کے ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو اور جن کےلیے وصیت کی ہےوہ وارث نہ ہوں، البتہ فوت ہونے کےبعد بی سی کو پورا کرنا ورثاء پر لازم نہیں ، نیز یہ کہ مسجد کی تعیین ہوجائے تو بہتر ہے۔صورت مسؤلہ میں وصیت کرنے کےلیے  بہتر الفاظ درج  ذیل ہیں:

 میرے فوت ہونے کے بعد تجہیز و تکفین کےاخراجات اور میرے ذمہ واجب الاداء قرض کی ادائیگی کےبعد جو مال  باقی بچے،اس کے ایک تہائی کا ایک متعین فیصد( مثلا (20% امام صاحب کودیا جائے ، اتنے فیصد ڈاکٹر عابدہ ، کاشف شمسی اور مسجد کو دیاجائے اور اگر میں عمر ہ پر نہ جاسکا تو اس کا اتنے  فیصد مسجد میں دیا جائے۔اس وصیت نامے میں ایک تہائی تک درج بالا تفصیل کےمطابق ورثاء پر عمل لازم ہوگا اور اس پر کسی کو اعتراض کا حق نہ ہوگا۔

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (4/ 515):
"ويستحب أن يوصي الإنسان بدون الثلث" سواء كانت الورثة أغنياء أو فقراء، لأن في التنقيص صلة القريب بترك ما له عليهم، بخلاف استكمال الثلث، لأنه استيفاء تمام حقه فلا صلة ولا منة، ثم الوصية بأقل من الثلث أولى أم تركها؟ قالوا: إن كانت الورثة فقراء ولا يستغنون بما يرثون فالترك أولى لما فيه من الصدقة على القريب. وقد قال عليه الصلاة والسلام: "أفضل الصدقة على ذي الرحم الكاشح" ولأن فيه رعاية حق الفقراء والقرابة جميعا، وإن كانوا أغنياء أو يستغنون بنصيبهم فالوصية أولى لأنه يكون صدقة على الأجنبي، والترك هبة من القريب والأولى أولى لأنه يبتغي بها وجه الله تعالى۔
تحفة الفقهاء (3/ 207):
أما شرائط الصحة فمنها أهلية التبرع َ۔۔۔ومنها التقدير بثلث التركة حتى أنها لا تصح فيما زاد على الثلث إلا أن يجيز الورثة وإجازتهم وردهم يصح بعد الموت أما قبل الموت فلا يصح لما قلنا إن الملك بالوصية يثبت بعد الموت ومنها أن يكون الموصى له أجنبيا حتى أن الوصية للوارث لا تجوز إلا بإجازة الورثة لقوله عليه السلام لا وصية لوارث إلا أن يجيز الورثة فإن أجاز بعض الورثة تنفذ بقدر حصته من الميراث لا غير

نعمت اللہ

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

23/رجب/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نعمت اللہ بن نورزمان

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے