021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
امریکہ میں صفائی کے بزنس سے وابستہ کمپنی کو مطلقاً نقصان کا ضامن بنانے کا حکم
83049اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے جدید مسائل

سوال

امریکہ میں صفائی کی صنعت بہت بڑی ہے۔ پچھلے دو، تین سالوں سے نیا ٹرینڈ آیا ہے جسے ریموٹ کلیننگ بزنس کہا جاتا ہے، اس کاروباری ماڈل میں پہلے مجھے ایک LLC بنانا ہو گا، پھر مجھے ایک ویب سائٹ بنانا ہو گی، پھر مجھے گوگل لوکل سروس اشتہارات کے لیے گوگل پر ایک اکاؤنٹ بنانا ہو گا، اگر گوگل لوکل سروس اشتہارات کے لیے میری درخواست کو قبول کرتا ہے تو مجھے گوگل گارنٹی بیج ملے گا جسے میں اپنی ویب سائٹ پر لگا سکتا ہوں۔ امریکہ میں یہ ایک نئی قسم کی تشہیر کا ذریعہ ہے جس میں گوگل کلائنٹ (کمپنی کے مالک) کو ایک گارنٹی بیج جاری کرتا ہے، اور گوگل اس کاروبار کی تشہیر کرتا ہے۔

کمپنی کے ملازمین کے ہاتھوں اگر کسی کسٹمر کے گھر میں کام کرتے ہوئے کوئی نقصان ہوجائے تو گھر کا مالک کمپنی سے نقصان کی ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے، نقصان چاہے جان بوجھ کر ہو یا انجانے میں، کسٹمر اپنا نقصان بہر حال کمپنی سے وصول کرتا ہے۔ کیا کسٹمر کا کمپنی یا ٹھیکیدار سے غیر اختیاری نقصان کی صورت میں بھی  تاوان لینا درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق صفائی کی بزنس کرنے والی کمپنی اور گاہک کے درمیان اجارہ کا معاملہ ہوتا ہے، کمپنی اور ٹھیکیدار اپنے گاہک کے لیے اجیر مشترک ہیں، جبکہ کمپنی اور ٹھیکیدار اپنے جن ملازمین سے کام کرواتے ہیں وہ ملازمین ان کے لیے اجیرِ خاص ہیں۔

 اجیرِ مشترک کو اس کے عمل سے ہونے والے نقصان کا مطلقاً (جان بوجھ کر ہو یا غلطی سے) ضامن بنانا جائز ہے؛ لہٰذا اگر کمپنی اور گاہک یا ٹھیکیدار اور گاہک کے درمیان یہ بات طے ہو کہ صفائی کرنے والے کے ہاتھوں ہونے والے نقصان کا تاوان بہر صورت کمپنی یا ذیلی ٹھیکیدار کسٹمر کو ادا کرے گا تو اس کی گنجائش ہے۔ البتہ اگر کمپنی یا ذیلی ٹھیکیدار اپنے اس ملازم سے تاوان لینا چاہے جس کے ہاتھوں نقصان ہوا ہو تو وہ اس سے اسی وقت تاوان وصول کرسکتا ہے جب نقصان اس ملازم کی تعدی یا تقصیر کی وجہ سے ہوا ہو۔

حوالہ جات
رد المحتار (6/ 65):
قوله ( ولا يضمن الخ ) اعلم أن الهلاك إما بفعل الأجير أو لا، والأول إما بالتعدي أو لا، والثاني إما أن يمكن الاحتراز عنه أو لا، ففي الأول بقسميه يضمن اتفاقاً، وفي ثاني الثاني لا يضمن اتفاقاً، وفي أوله لا يضمن عند الإمام مطلقاً ويضمن عندهما مطلقاً….وفي البدائع: لا يضمن عنده ما هلك بغیر صنعه قبل العمل أو بعده؛ لأنه أمانة في يده وهو القياس، وقالا يضمن إلا من حرق غالب أو لصوص مكابرين وهو استحسان اه…. وقال بعضهم: قول أبي حنيفة قول عطاء وطاوس وهما من كبار التابعين، وقولهما قول عمر وعلي، وبه يفتى احتشاماً لعمر وعلي وصيانةً لأموال الناس،والله اعلم اه. وفي التبيين: وبقولهما يفتى لتغير أحوال الناس، وبه يحصل صيانة أموالهم اه؛ لأنه إذا علم أنه لا يضمن ربما يدعى أنه سرق أو ضاع من يده.
المجلة (ص: 114):
 مادة 610: الأجير الخاص أمين حتى أنه لا يضمن المال الذي تلف في يده بغير صنعه، وكذا لايضمن المال الذي تلف بعمله بلا تعد أيضا.
مادة 611: الأجير المشترك يضمن الضرر والخسار الذي تولد عن فعله وصنعه، إن كان بتعديه وتقصيره أو لم يكن.
 شرح المجلة للأتاسي (2/720):
شرح الٓمادة 611: وعمل أجیره (أي الأجیر المشترك) مضاف إلیه، فیضمنه، وإن لم یضمن الأجیر؛ لأنه أجیر وحد له، ما لم یتعد، کما في الدر آخر باب الضمان.

   عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     24/رجب المرجب/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے