021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کمپنی میں بیٹیوں کو شریک کرنے کے بعد ان کے شیئرز کا حکم
82917ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

ایک شخص کی بیوی ،  13 اور 14 سال کی دو بیٹیاں ہیں، اس شخص کی ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی ہے، یہ چاہتے ہیں کہ اپنی زندگی میں ہی کمپنی میں بیٹیوں کوشئیرز دے دئیے جائیں  ۔رہنمائی یہ مطلوب ہے کہ شئیرز دیئےجانےکےبعد والد کے انتقال کی صورت میں ان بچیوں کے شئیرز  شرعا اور قانونا   میراث کا مال شمار ہوگا یا یہ شئیرز ان بچیوں کا مال تصور ہوگا  ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں اگر شرعی طریقہ ٴ کار کے مطابق بیٹیوں کو کمپنی کے شیئرز مالک بنا کر دے دیے جائیں تو یہ بیٹیاں ان شیئرز کی شرعاً مالک ہو جائیں گی اور آپ کی وفات کے بعد بھی یہ شیئرز انہی کی ملکیت شمار ہوں گے، آپ کا ترکہ اور میراث میں شامل نہیں ہوں گے۔

باقی بیٹیوں کو شیئرز دینے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ کمپنی کی مجموعی مالیت/شیئرز معلوم کر لیے جائیں اور پھر جتنے شیئرز کا آپ اپنی بیٹیوں کو مالک بنانا چاہیں اتنے شیئرز ان کو ہبہ/گفٹ کر دیں  اور پھر اتنے فیصد شیئرز قانونی کاغذات میں بھی بیٹیوں کے نام رجسٹرڈ کروا دیے جائیں تو یہ ہبہ درست ہو جائے گا اور ان شیئرز میں شرعًا و قانونًا ان کی ملکیت ثابت ہو جائے گی، کیونکہ کمپنی اپنے تمام اثاثہ جات یعنی بلڈنگ، فرنیچر، گاڑیاں، مشنری اور خام مال وغیرہ سمیت مجموعی اعتبار سے ناقابلِ تقسیم اشیاء میں شامل ہے اور ایسی چیز کسی کو ہبہ کرتے وقت حقیقی قبضہ دینا ضروری نہیں، بلکہ ہبہ کی گئی چیز پر حکمی قبضہ دینا کافی ہے، حکمی قبضہ کا مطلب یہ ہے کہ بچیوں کو ان شیئرز پر تصرف کا حق دے دیا جائے اور تصرف کا حق قانونی طور پر شیئرز ان کے نام کروانے سے حاصل ہو گا۔ لہذا کمپنی کے شیئرز زبانی طور پربیٹیوں کو  ہبہ کرنے کے بعد قانونی کاغذات میں ان کے نام کروانے سے وہ ان کی مالک بن جائیں گی۔

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 223) دار احياء التراث العربي – بيروت:
قال: "ولا تجوز الهبة فيما يقسم إلا محوزة مقسومة، وهبة المشاع فيما لا يقسم جائزة" ولنا أن القبض منصوص عليه في الهبة فيشترط كماله والمشاع لا يقبله إلا بضم غيره إليه، وذلك غير موهوب، ولأن في تجويزه إلزامه شيئا لم يلتزمه وهو مؤنة القسمة، ولهذا امتنع جوازه قبل القبض لئلا يلزمه التسليم، بخلاف ما لا يقسم؛ لأن القبض القاصر هو الممكن فيكتفى به.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 120) دار الكتب العلمية:
والشياع لا يمنع الملك ألا ترى أنه يجوز بيع المشاع وكذا هبة المشاع فيما لا يقسم وشرطه هو القبض والشيوع لا يمنع القبض لأنه يحصل قابضا للنصف المشاع بتخلية الكل ولهذا جازت هبة المشاع فيما لا يقسم وإن كان القبض فيها شرطا لثبوت الملك كذا هذا.
أسنى المطالب في شرح روض الطالب (2/ 482) دار الكتاب الإسلامي،بيروت:
(فرع قبض المشاع) يحصل (بقبض الجميع) منقولا كان، أو غيره.
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (6/ 4256) دار الفكر – سوريَّة:
ويرى الشافعية والحنابلة: أن قبض المشاع في العقار يكون بالتخلية، وإن لم يأذن الشريك، وفي المنقول يكون بالتناول، ويشترط فيه إذن الشريك، ولا يجوز نقله بغير إذن الشريك. فإن أبى ورضي المرتهن بكونه في يد الشريك، جاز وناب عنه في القبض.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

23/رجب المرجب 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے