021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہرسےخلع لینے کا طریقہ
83030طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

جناب مفتی صاحب میری خالہ کی شادی 1998 میں ہوئی تھی ، 23 پھر سال سے شوہر سے الگ رہ رہی ہے ،کوئی اولا د نہیں ہوئی ، نکاح نامہ شوہر کے پاس ہے ، وہ دیتا نہیں ، ایسےمیں خلع لینے کی شرعا کیا صورت ہوگی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خلع بیع وشراء دیگر معاملات کی طرح ایک معاملہ ہے جو طرفین کی رضامندی پر موقوف ہوتا ہے ، عورت کا بلاوجہ طلاق یاخلع کامطالبہ کرنا جائز نہیں ،لہذا مذکور عورت کو چاہئے کہ اپنے شوہر کے ساتھ نباہ کرنے کی پوری کوشش کرے،اور دونوں جانب کے سرپرستوں کے ذریعہ دوطرفہ شکایات کے ازالے کی کوشش کی جائے ،اگر شوہر سے ناقابل برداشت شکایات ہیں ، جن کی وجہ سے عورت اس شوہر کے ساتھ زندگی گذار نے کے لئے بالکل تیار نہیں، توعورت کو چاہئے کہ شوہر سے طلاق لے لے، یا کچھ مال دیکر آپس کی رضامندی سے خلع حاصل کرے،اگر شوہر اپنی مرضی سے طلاق یاخلع پر تیار نہیں ، تو اس سے زبردستی بھی طلاق لی جاسکتی ہے ،اگر یہ بھی ممکن نہ ہواور عورت کے پاس اس سے خلاصی کی کوئی اور صورت بھی نہیں ،توایسی صورت میں شوہر متعنت شمار ہوگا ۔ ایسے متعنت شوہر سے جان چھڑانے کا ایک جائز طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عورت عدالت میں اپنا مسئلہ پیش کرے ،اور گواہوں سے اپنا نکاح اور شوہر کا تعنت ثابت کرے کہ ظلم وستم کرتا ہے ، خرچہ پانی نہیں دیتا ہے ، طلاق دینے کے لئے بھی تیار نہیں ،عدالت اپنے طور پر شوہر سے رابطہ کرکے اسے کسی ایک کام پر امادہ کرنے کی کوشش کرے ،اور اس سے کہدے کہ یاتوحقوق ادا کرو ورنہ نکاح فسخ کردیاجائے گا،پھر اگر وہ کسی بات پر بھی امادہ نہ ہو تو پھر عدالت اس کے تعنت کی بنیاد پر فسخ نکاح کا فیصلہ کرے ، اس کے بعدعورت کسی اور جگہ شادی کرسکتی ہے ۔

حوالہ جات
مشكاة المصابيح للتبريزي (2/ 247) عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " المنتزعات والمختلعات هن المنافقات " . رواه النسائي۔
مشكاة المصابيح للتبريزي (2/ 244) عن ثوبان قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أيما امرأة سألت زوجها طلاقا في غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة " . رواه أحمد والترمذي وأبو داود وابن ماجه والدارمي۔
المبسوط للسرخسي (6/ 171) فيحتمل الفسخ بالتراضي أيضا، وذلك بالخلع، واعتبر هذه المعاوضة المحتملة للفسخ بالبيع والشراء في جواز فسخها بالتراضي.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 145) وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ

دارالافتاء جامعة الرشید کراچی

۲۵ رجب ١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے