021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کورٹ میرج کے بعد زبردستی طلاق و نکاح کا حکم
82918طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

(1)میں محمد فراز چیمہ ہوں ،15/12/2023 کو میرا نکاح ہوا  ؟یہ  میرا پہلا نکاح تھا اور مجھے بتایا گیا کہ لڑکی ماہ نور ملک کا بھی یہ پہلا نکاح ہے اس لیے ہم دونوں کااسٹیٹس  کنوارہ ،کنواری (single) کے طور پر لکھا گیا ؟  26/12/2023کومجھے اُس لڑکی نے بتایا کہ اس کا اس سے پہلے نکاح ہو چکا تھا جو اس نے کورٹ میرج کے ذریعے کیا تھا۔

تنقیح :سائل نے بتایا کہ کورٹ میرج کے ذریعہ جونکاح ہوا تھا ،وہ کفو میں ہوا تھا ۔دونوں  تقریبا ایک جیسے گھرانے کے تھے،یعنی :مال کے اعتبار سے ایک جیسے تھے ،عمر میں 2سال کا فرق تھا ،دونوں کی تعلیم انٹر تک تھی ،باقی دینداری کا  مجھے نہیں پتا ۔

    (2)  والدین نے 3 دن بعد زور زبرستی سے کورٹ  میں طلاق کرائی ۔مجھ پر یہ خبر بجلی کی طرح گری ،میں نے اس کے والدین سے پوچھا۔ تو پہلے تو وہ نہیں مانے پھر اس کے پہلے نکاح اور طلاق کو مان گئے۔ وہ لڑکی کہتی ہے کہ اس کی طلاق زور زبردستی سے ہوئی  ۔

تنقیح : سائل نے بتایا کہ جب  کورٹ میں طلاق ہوئی،تو سابقہ شوہر موجود تھا ،اس نے دستخط بھی کیا تھا مگر اس نے کہاں کہ آپ لوگ مجھ  سے زبردستی  طلاق دلوارہے ہو،میں طلاق دینا نہیں چاہ رہا  تھا ۔اور سابقہ شوہر کے  گھر  جا کر  اس کو  بلیک میل بھی کیا تھا۔اورکہا تھا کہ ہم  آپ کے گھر آکر خودکشی کر لیں گے ،یا لڑکی کے چھوٹے بھائی کو مار کر  قتل آپ کے ذمہ لگا دینگے  ۔

    (3)لڑکی  کا نکاح 15/12/2023 میرے ساتھ بھی زور زبردستی سے ہوا اور زبردستی دستخط کرائے گئے بغیر کسی کی موجود گی میں ۔جبکہ  والدین کہتے ہیں کہ  اس کی طلاق رضامندی سے ہوئی اور 15/12/2023 کو میرے ساتھ نکاح پر دستخط بھی رضا مندی اور سب کے سامنے ہوئے۔

تنقیح :لڑکی کے والدین نے بتایا کہ لڑکی  کی رخصتی نہیں ہوئی تھی اور کوئی ازدواجی تعلق قائم نہیں ہوا تھا۔لیکن سائل کہہ رہا ہے کہ میں نے لڑکی سے پوچھا ،تو اس نے اس کے بارے میں کوئی جواب نہیں دیا ۔اور 15دسمبر کو جو نکاح ہوا تھا  ،اس میں لڑکی  نے بتایا  کہ  والد (وکیل )نے لڑکی سے اکیلے میں دستخط کروائے  ،اس وقت لڑکے اور لڑکی کے طرف سے کوئی گواہ موجود نہیں تھے،لیکن جب مسجد میں مجلس نکاح ہوئی  تو مولوی صاحب نے لڑکی کے والد سے پوچھا کہ آپ نے سب کے سامنے اجازت لی ہے تو والد نے بولا کہ ہاں  میں نے سب کے سامنے   اجازت لی ہے ۔

زبردستی سے مراد لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی ۔طلاق کے وقت بھی اور نکاح کے وقت بھی ۔

مسئلہ: حضرت مجھے یہ بتائیں کہ 12. 15. 2023کو جو میرانکاح ہوا اس کی شرعی حیثیت کیاہے  لڑکی کے والدین  نے اس کو کنواری لکھو ایا ، جبکہ وہ طلاق یافتہ تھی۔  لڑکی کہتی ہے کہ اس سے زبردستی دستخط کرائے جبکہ گھر والے کہتے ہیں کہ رضامندی سے۔لڑکی کہتی وہ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور جسکے ساتھ اس کے کورٹ میرج کی اُس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے ،لڑکی کہتی ہے اس کے پاس بنوری  ٹاؤن  کا فتوی ہے  کہ اس کی طلاق جائز نہیں کیونکہ زور زبردستی سے طلاق ہوئی ہے ۔

 مجھے بتا دیں،کہ  وہ کسں کے نکاح میں ہے شرعی اعتبار  سے میرے یا کورٹ میرج والےکے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  1. شریعت میں اولاد کو اپنے ولی (والد اور بھائیوں وغیرہ) کی اجازت اور سرپرستی میں نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا شرم وحیاء کے بھی خلاف ہے۔ تاہم صورتِ مسئولہ میں اگر یہ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کے کفو یعنی خاندانی شرافت، دینداری، پیشہ اور مالداری (یعنی کہ لڑکا مہر اور نان نفقہ دینے پر قادر ہو) میں ہم پلہ تھے تو مذکورہ نکاح شرعاً منعقد ہوگیا تھا۔
  2. طلاق کا معاملہ شرعاً انتہائی نازک اور حلال و حرام کا ہے۔ اس میں کسی دارالافتاء سےغلط بیانی کرکے  فتوی لے کر اپنی چاہت کے مطابق عمل کرنے سے کوئی شخص اللہ کے نزدیک  گناہ سے نہیں بچ سکتا۔ لہذا ایسے کسی فعل سے اجتناب کرنا لازمی ہے۔

صورت مسئولہ اگر حقیقت کے مطابق ہے تو اس  میں اگر سابقہ شوہر  کو واقعتا  بلیک میل  کرکے قتل اس کے ذمہ ڈالنے کی دھمکی دی گئی تھی اور اس کو یقین تھاکہ وہ یہ دھمکی پوری کرسکتے ہیں اور پورا کریں گے ۔اور سابقہ شوہر نے زبان سے کہے بغیر تحریری صورت میں  موجود طلاق پر دستخط کیے ہیں تو طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اگر شوہر کو کوئی بڑی دھمکی نہیں دی تھی بلکہ اپنی رضامندی سے طلاق نامے پر دستخط کیے تھے،  یا دھمکی  دی تھی لیکن سابقہ شوہر  نے زبان سے الفاظ طلاق بھی ادا کر دیے تھے تو پھر طلاق واقع ہوگئی ہے ۔

  1. لڑکی کے بقول جب اس کا نکاح اس طرح ہوا کہ لڑکی سے زبردستی نکاح نامہ پر دستخط کروالیے گئے اور اس نے زبان سے اقرار نہیں کیا تو یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا۔

خلاصہ یہ   ہوا کہ خاتون کا آپ سے نکاح تو بہر حال درست نہیں ۔فوری الگ ہونا ضروری ہے ۔

البتہ  اگر  تحریری طلاق کے ساتھ  زبانی طلاق بھی دی تھی تو چونکہ  طلاق واقع ہوچکی  ،اس  لیے اگرآپ  ازسر نو نکاح کرنا چاہے تو نکاح کرسکتے ہے ۔ لیکن جب سابقہ  شوہر سے  زبردستی طلاق دلوائی گئی تھی تو چونکہ طلاق واقع نہیں ہوئی  اس  لیے  خاتون سے آپ نکاح نہیں کرسکتے ۔

حوالہ جات
قال: " و " تعتبر " في المال وهو أن يكون مالكا للمهر والنفقة " وهذا هو المعتبر في ظاهر الرواية حتى إن من لا يملكهما أو لا يملك أحدهما لا يكون كفؤا لأن المهر بدل البضع فلا بد من إيفائه وبالنفقة قوام الازدواج ودوامه...... لأن الناس يتفاخرون بالغنى ويتعيرون بالفقر وقال أبو يوسف رحمه الله لا يعتبر.
)الهداية في شرح بداية المبتدي :1/ 196)
إن الكفاءة في النكاح تكون في ست :لها بيت بديع قد ضبط نسب وإسلام كذلك حرفة حرية وديانة مال فقط. (ردالمحتار: 3/86)
 ( كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا ) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن ، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال.(رد المحتار : 25 / 76)
                                                  وفي المحيط قال مشايخنا: إلا إذا كان الرجل صاحب منصب يعلم أنه يتضرر بضرب سوط أوحبس يوم فإنه يكون إكراها وقد يكون فيه ما يكون في الحبس من الاكراه لما يجئ به من الاغتمام البين ومن الضرب ما يجد به الالم الشديد وليس في ذلك حد لا يزاد عليه ولا ينقص منه ،لانه يختلف باختلاف أحوال الناس، فمنهم لا يتضرر إلا بضرب شديدوحبس مديد، ومنهم من يتضرر بأدنى شئ كالشرفاء والرؤساء يتضررون بضرب سوط أو بفرك أذنه لا سيما في ملا من الناس أو بحضرة السلطان.(البحر الرائق (252 / 16: لو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق ؛لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية ، وفي البزازية أكره على طلاقها فكتب فلانة بنت فلان طالق لم يقع.(البحر الرائق : 9 / 138)
وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا، كذا في الخانية.(الدر المختار (236/ 3:
عن ابن عباس، أن جَاريةً بِكْراً أتَتِ النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرت أنَّ أباها زَوَّجَها وهي كارهة.فَخَيَّرَهَا النبي صلى الله عليه وسلم. ) إعلاء السنن ،ص:221 (
 قوْلُهُ:ولا تجبر بكر بالغة علي النكاح اي:لا ينفذ عقد الولي عليها بغير رضاها عندنا .(البحر الرائق،ص 118:)

محمد مفاز

 دارالافتاء، جامعۃ الرشید،کراچی

22رجب1445ء

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مفاز بن شیرزادہ خان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے