021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین طلاق کاحکم
82937طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

بعد سلام گزارش ہے کہ میں مسمی نائیلہ بنت محمد انور عرض کرتی ہوں کہ میری شادی دو سال پہلے ہوچکی ہے،اور شادی کے پانچ مہینے بعد خاوند نے ناحق تین بار کہہ کر طلاق دیدی ہے۔اور مجھے گھر سے نکال دیاہے۔طلاق کے الفاظ :(تم مجھ پر 20 بار طلاق ہو،یہ الفاظ بہت بار کہے ہیں،اور یہ بھی بعد میں کہاہے کہ تم میرے گھر سے نکل جاو،میں دوسری شادی کروں گا)اب تقریبا 16 مہینے ہوگئے ہیں نہ کوئی حال احوال کیاہے اور نہ پوچھا ہے۔لہذا شریعت کی روشنی میں مجھے فتوی جاری کیاجائے،عین نوازش ہوگی. 1۔طلاق کا کیاحکم ہے؟ 2۔طلاق کے بعد دورانیے کے خرچے کاکیاحکم ہے؟ 3۔سامان کاکیاحکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔تین طلاق دینے پر وہ تینوں واقع ہوجاتی ہیں،چاہے ایک ساتھ ہوں یا الگ الگ ،اوربیوی شوہر پر حرمت ِمغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے،لہذا صورت مسئولہ میں تین طلاقین واقع ہوچکی ہیں،اب رجوع نہیں ہوسکتا،اور بغیر حلالہ دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا،عدت گزارنے کے بعد عورت دوسری جگہ، جہاں چاہے ،نکاح کرسکتی ہے۔

2۔اگر عدت جاری ہے تو اس کا نفقہ شوہر پر لازم ہے،اس لیے کہ خاتون اس کی زبردستی کی وجہ سے والد کے گھر آئی ہے،اوراگر عدت ختم ہوچکی اورقاضی (عدالت ) نے خرچہ طے کیا تھایا فریقین نے باہمی رضامندی سے کسی مقدار کا تعین کرلیا تھااورشوہر نےادائیگی نہ کی ہو تو مطلقہ بیوی عدت کے نفقہ کا مطالبہ کرسکتی ہے اور اس کا ادا کرناشوہر پر لازم ہوگا اور اگر ان دو صورتوں میں سے کوئی صورت نہیں پائی جاتی تو عدت کے نفقہ کی ادائیگی شوہر پر لازم نہیں ہوگی۔ 3۔جو سامان جہیز،کپڑے،اور زیور وغیرہ لڑکی کو میکہ والوں کی طرف سے ملتا ہے وہ لڑکی کی ملکیت شمار ہوتی ہے، اسی طرح لڑکے والوں کی طرف سے جو عام استعمال کی چیزیں مثلاً کپڑے ، جوتے ، گھڑی وغیرہ لڑکی کو دیے جاتے ہیں ، اسی طرح منہ دکھائی کے موقع پر جو چیز دی جائے، یہ سب بھی لڑکی ہی کی ملکیت ہے۔ لڑکی کو نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو زیورات سسرال والوں کی طرف سے ملتے ہیں، ان میں یہ تفصیل ہے کہ اگر زیورات دیتے وقت سسرال والوں نے اس بات کی صراحت کی تھی کہ یہ بطورِ عاریت یعنی صرف استعمال کرنے کے لیے ہیں تو پھر یہ زیورات لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے، اور اگرسسرال والوں نےہبہ ، گفٹ اور مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر ان زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں کی تھی تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے یا ان کا کوئی رواج نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں میں زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھر سسرال والے ہی مالک ہوں گے۔

حوالہ جات
وفی الفتاوى الهندية (1/ 349): (وأما البدعي)۔۔۔ (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا. وفي الهنديه(10/196) : وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين . وفی التبیین(6/486) : قال رحمه الله ( وكره بشرط التحليل للأول ) أي يكره التزوج بشرط أن يحلها له يريد به بشرط التحليل بالقول بأن قال تزوجتك على أن أحلك له أو قالت المرأة ذلك .وأما لو نويا ذلك في قلبهما ولم يشترطاه بالقول فلا عبرة به ويكون الرجل مأجورا بذلك لقصده الإصلاح. وفی الشامیة(3/594): " (والنفقة لا تصير دينا إلا بالقضاء أو الرضا) أي اصطلاحهما على قدر معين أصنافا أو دراهم، فقبل ذلك لا يلزم شيء، وبعده ترجع بما أنفقت ولو من مال نفسها بلا أمر قاض. (قوله : والنفقة لا تصير دينا إلخ) أي إذا لم ينفق عليها بأن غاب عنها أو كان حاضرا فامتنع فلا يطالب بها بل تسقط بمضي المدة." في الدر المختار مع حاشية ابن عابدين(4 / 308): ( جهز ابنته ثم ادعى أن ما دفعه لها عارية وقالت هو تمليك أو قال الزوج ذلك بعد موتها ليرث منه وقال الأب ) أو ورثته بعد موته ( عارية ف ) المعتمد أن ( القول للزوج ولها إذا كان العرف مستمرا أن الأب يدفع مثله جهازا لا عارية ، و ) أما ( إن مشتركا ) كمصر والشام ( فالقول للأب ) كما لو أكثر مما يجهز به مثلها . قال ابن عابدين : ومقتضاه أن المراد من استمرار العرف هنا غلبته ، ومن الاشتراك كثرة كل منهما إذ لا نظر إلى النادر ولأن حمل الاستمرار على كل واحد من أفراد الناس في تلك البلدة لا يمكن ، ويلزم عليه إحالة المسألة إذ لا شك في صدور العارية من بعض الأفراد والعادة الفاشية الغالبة في أشراف الناس وأوساطهم دفع ما زاد على المهر من الجهاز تمليكا سوى ما يكون على الزوجة ليلة الزفاف من الحلي والثياب ، فإن الكثير منه أو الأكثر عارية ، فلو ماتت ليلة الزفاف لم يكن للرجل أن يدعي أنه لها يلي القول فيه للأب أو الأم أنه عارية أو مستعار لها كما يعلم من قول الشارح ، كما لو كان أكثر مما يجهز به مثلها وقد يقال هذا ليس من الجهاز عرفا . وبقي لو جرى العرف في تمليك البعض وإعارة البعض . ورأيت في حاشية الأشباه للسيد محمد أبي السعود عن حاشية الغزي قال الشيخ الإمام الأجل الشهيد : المختار للفتوى أن يحكم بكون الجهاز ملكا لا عارية لأن الظاهر الغالب إلا في بلدة جرت العادة بدفع الكل عارية فالقول للأب . وأما إذا جرت في البعض يكون الجهاز تركة يتعلق بها حق الورثة هو الصحيح .ا هـ . رد المحتار: (3/153 ط: دار الفکر): ومن ذلك ما يبعثه إليه قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابا ونحوها صبيحة العرس أيضا۔ و فيه أيضا: (5/696، ط: دار الفکر): (قوله: وكذا زفاف البنت) أي على هذا التفضيل بأن كان من أقرباء الزوج أو المرأة أو قال المهدي. أهديت للزوج أو المرأة كما في التتارخانية.وفي الفتاوى الخيرية سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها هل يكون حكمه حكم القرض فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به مثليا فبمثله، وإن قيميا فبقيمته وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولا ينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا اه. الھندیة: (1/327، ط: دار الفکر): وإذا بعث الزوج إلی أھل زوجتہ أشیاء عند زفافھا منھا دیباج، فلما زفت إلیہ أراد أن یسترد من المرأۃ الدیباج لیس لہ ذلک، إذا بعث إلیھا علی جھۃ التملیک - إلی قولہ - وقال في الواقعات: إن کان العرف ظاھراً بمثلہ في الجھاز کما في دیارنا، فالقول قول الزوج، وإن کان مشترکا، فالقول قول الأب۔

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

25/رجب1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے