021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مغربی این جی اوز کے ساتھ کام کرنے اور تنخواہ و امداد لینے کا حکم
83040جائز و ناجائزامور کا بیانکفار کے ساتھ معاملات کا بیان

سوال

میرا تعلق پشاور سے ہے، ہمارے علاقے میں بین الاقوامی این جی اوز، مثلاً GIZ اور UNICEF وغیرہ افغان مہاجرین اور میزبان کمیونٹی کے درمیان مختلف پروجیکٹس کروا رہے ہیں، مثلاً:

  1. Mental Health and Psychological Support Program.
  2. Renewable Energy and energy Efficiency Project.
  3. Medical and Technical Education.

ایک کورس کی مدت تین سے دس دن تک ہوتی ہے، ہر دن کا کھانا بھی ان کی طرف سے ہوتا ہے اور فی یوم ہزار روپے بھی ہوتے ہیں جو کورس کی تکمیل پر دیتے ہیں۔ علاقے میں بعض لوگ ان این جی اوز کے اس معاوضہ اور کھانے پینے کو حرام سمجھتے ہیں، ان کا نظریہ ہے کہ یہ انگریزوں کے پیسے ہیں اور یہ این جی اوز انگریزوں کی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ان پیسوں اور کھانے پینے کی اشیاء کا شرعی حکم کیا ہے؟ کیا یہ ہمارے لیے جائز ہیں؟ اس قسم کی این جی اوز کے ساتھ کام اور نوکری کرنا جائز ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مغربی این جی اوز کے ساتھ کام کرنے، ان سے امداد وصول کرنے اور ان کے پروگرامات میں شرکت کرنے کا حکم یہ ہے کہ اگر اس میں کوئی ناجائز کام نہ کرنا پڑتا ہو، ان اداروں کی طرف سے اسلامی تعلیمات کے خلاف تصورات اور نظریات کی تبلیغ اور تعلیم نہ ہوتی ہو، نہ ایسی ذہن سازی کی جاتی ہو، نہ ہی کوئی اور مذموم مقصد اور ایجنڈا پیشِ نظر ہو، بلکہ صرف فنی تعلیم اور صحت جیسے جائز امور پر کام اور گفتگو ہوتی ہو تو ان کے ساتھ کام کرنے اور ان کے پروگرامات میں شرکت کرنے کی گنجائش ہے، ایسی ملازمت کی تنخواہ اور شرکا کو ملنے والی امداد ناجائز نہیں ہوگی۔ لیکن اگر ان اداروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے  ناجائز کام کرنے پڑتے ہوں، ان کے پروگرامات میں اسلامی تعلیمات کے خلاف تصورات اور نظریات پیش کیے جاتے ہوں یا وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کسی اور ایجنڈے کے فروغ کے لیے کردار ادا کر رہے ہوں (اور بالعموم ان کے یہ مذموم مقاصد ہوتے ہیں) تو پھر ان کے ساتھ کام کرنا، ان کے پروگرامات میں شرکت کرنا اور ان سے تنخواہ و امداد لینا جائز نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
القرآن الکریم:
{وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} [المائدة: 2].
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} [المائدة: 51]
تکملة فتح الملهم (3/22):
والذي یتلخص من مجموع الروایات أن الأمر في الاستعانة بالمشرکین موکول إلی مصلحة الإسلام والمسلمین، فإن کان یؤمن علیهم من الفساد وکان في الاستعانة بهم مصلحة فلا بأس بذلك إن شاء الله تعالیٰ إذا کان حکم الإسلام هو الظاهر ویکون الکفار تبعًا للمسلمین، وإن کان للمسلمین عنهم غنی أو کانوا هم القادة والمسلمون تبعًا لهم أویخاف منهم الفساد فلایجوز الاستعانة بهم.
المحيط البرهاني (8/ 40):
ويكره للمسلم أن يؤاجر نفسه من الكافر للخدمة، ويجوز إذا فعل، أما الجواز فلما مرّ وأما الكراهة؛ لأنه استذلال صورة فإن لم يكن استذلالاً معنى، وليس للكافر استذلال المسلم صورة. «وفي فتاوي الفضلي»: لا تجوز إجارة المسلم نفسه من النصراني للخدمة، وفيما سوى الخدمة يجوز، والأجير في سعة من ذلك ما لم يكن في ذلك إذلال.

   عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     25/رجب المرجب/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے