021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بطورعادت”طلاق ہے پھر تم بھی نہیں جیت سکو گے "کہنےسے طلاق کاحکم
82970طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

کیافرماتے ہیں کہ علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

         میرا نام نجیب اللہ ہے،میری منگنی دو ماہ پہلے ہوئی ہے، اور نکاح بھی ہوگیاہے،لیکن رخصتی نہیں ہوئی، نکاح سے پہلے میری یہ عادت تھی کہ اگر کوئی مہمان چائے یا کھانا نہیں کھاتا تھا تو میں بولتا تھا: "طلاق ہے تم کھانا کھاؤگے)" یہ میری عادت تھی، اب ایک دن میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا، وہ تاش کھیل رہے تھےتو میں نے ایک دوست سے کہا: "مجھے تاش میں اپنے ساتھ بٹھاؤ" اس دوست نے کہا: "نہیں بٹھاؤنگا" میں نے بہت بار کہالیکن وہ نہیں مانا، تو میں نے کہاکہ "ٹھیک ہے" پہلی گیم وہ جیت گئے جس میں مجھےوہ اپنے ساتھ نہیں بٹھا رہے تھے، اب دوسری گیم شروع ہوئی تو اس پر پہلی گیم سے زیادہ پیسے لگے تھےتو وہ گیم وہ ہار گئے،میں نے پوچھا، ہار گئے ہو؟ تو اس نے کہا:"ہاں ہار گیا ہوں" دوسرے دوست نے کہا: کہ "تم نے اسے اپنے ساتھ کیوں نہیں بٹھایا" تو اس نے کہا "نہیں بٹھانا" تو میرے زبان سے عادت کے طورپریہ الفاظ نکلے"طلاق ہے پھر تم بھی نہیں جیت سکتے"میرے ذہن میں یا نیت میں کچھ بھی نہیں تھا،صرف عادت کے طورپرمیری زبان سے یہ الفاظ نکلے، نہ میرے ذہن میں اور نہ ہی نیت میں یہ تھا کہ اگلی گیم یا پوری زندگی آپ نہیں جیت سکتے، یہ تو بالکل بھی میرے ذہن میں یا نیت میں نہیں تھا، صرف عادت کے طورپرزبان سےالفاظ نکلے، مجھے لگتا ہے کہ اس نے جو گیم ہاری، اس کےبارے میں بات چل رہی تھی تو میں نے اس ہاری ہوئی گیم کے بارے میں کہا،اس میں تو میں کلئیر ہوں  کہ آنے والی گیم یا مستقبل کے بارے میں میرے ذہن یا نیت میں کچھ نہیں تھا اور نہ ہی اس محفل میں میرے ذہن میں یا نیت میں بیوی کا خیال تھا اور نہ ہی اس محفل میں کوئی غصے والا ماحول تھا اور نہ ہی میں نے غصے میں کہا ہے اور نہ ہی  میں نے اپنے  جملے میں بیوی کی طرف کوئی نسبت کی ہے۔رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شادی شدہ مرد جب لفظ"طلاق" بولتاہے اوراپنی یا غیرعورت کی طرف صراحةًیانیت میں نسبت نہیں کرتا توعموماً اس سے اپنی بیوی کی طرف معنوی نسبت مقصود ہوتی ہے،تاہم بقول سائل اس نے یہ جملہ بطور عادت کہاہے،بیوی کی طرف نسبت مقصودنہیں تھی،تو اگریہ جملہ واقعةً  اس کا تکیہ کلام ہے اوردوستوں میں اس حوالے سے وہ معروف ہے تو صورتِ مسئولہ میں طلاق واقع نہیں ہوئی،اس لیےکہ اس صورت میں عرفاً اپنی بیوی کو طلاق دینامقصود نہیں ہوتا۔تاہم طلاق کے معاملہ میں آئندہ احتیاط کرنا اور اس قسم کے الفاظ سے بچنا ضروری ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 248)
في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها لأنه يحتمله كلامه.
وفی حاشية ابن عابدين (3/ 250):
مطلب في قول البحر إن الصريح يحتاج في وقوعه ديانة إلى النية  قوله ( أو لم ينو شيئا ) لما مر أن الصريح لا يحتاج إلى النية ولكن لا بد في وقوعه قضاء وديانة من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها عالما بمعناه ولم يصرفه إلى ما يحتمله كما أفاده في الفتح وحققه في النهر.
وفی البحر الرائق شرح كنز الدقائق (3/ 273):
فلو قال طالق فقيل له من عنيت فقال امرأتي طلقت امرأته ولو قال امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن به امرأتي يصدق.
وفی فتاوى قاضيخان (1/ 230):
رجل قال طالق فقيله له من عنيت فقال امرأتي طلقت امرأته  رجل قال امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثاً وقال لم أعن به امرأتي يصدق.
الدر المختار (3/ 248):
قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها.
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 248):
 (قوله لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط والخطاب من الإضافة المعنوية، وكذا الإشارة نحو هذه طالق، وكذا نحو امرأتي طالق وزينب طالق. اهـ. أقول: وما ذكره الشارح من التعليل أصله لصاحب البحر أخذا من قول البزازية في الأيمان قال لها: لا تخرجي من الدار إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لا يقع لعدم حلفه بطلاقها، ويحتمل الحلف بطلاق غيرها فالقول له. اهـ. ومثله في الخانية، وفي هذا الأخذ نظر، فإن مفهوم كلام البزازية أنه لو أراد الحلف بطلاقها يقع لأنه جعل القول له في صرفه إلى طلاق غيرها، والمفهوم من تعليل الشارح تبعا للبحر عدم الوقوع أصلا لفقد شرط الإضافة، مع أنه لو أراد طلاقها تكون الإضافة موجودة ويكون المعنى فإني حلفت بالطلاق منك أو بطلاقك، ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته. اهـ. على أنه في القنية قال عازيا إلى البرهان صاحب المحيط: رجل دعته جماعة إلى شرب الخمر فقال: إني حلفت بالطلاق أني لا أشرب وكان كاذبا فيه ثم شرب طلقت. وقال صاحب التحفة: لا تطلق ديانة اهـ
وفی کفایت المفتی  :
(جواب ۳۵) زید کے  ان الفاظ میں جو سوال میں مذکور ہیں لفظ طلاق تو صریح ہے، لیکن اضافت الی الزوجہ صریح نہیں ہے، اس لیے اگر زید قسم کھاکر  یہ کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کو یہ الفاظ نہیں کہے تھے تو اس کے قول اور قسم کا اعتبار کرلیا جائے گا،  اور طلاق کا حکم نہیں دیا جائے گا- محمد کفایت  اللہ کان اللہ  لہ"۔ (6/53،54دارالاشاعت)
وفی فتاوی الجامعة العثمانیة، بشاور:
دو دوست جب ہوٹل میں کھانا کھاتے ہیں یا چائے پیتے ہیں تو دونوں پشتو میں ان الفاظ سے طلاق لیتےہیں (طلاق مہ دی کہ دپیسے ر اثخہ ور کے) مذکورہ الفاظ دونوں کہتے ہیں پھر ان میں سے ایک پیسے دیتا ہے تو کیا ان الفاظ سے طلاق واقع ہوتی ہے ؟
الجواب:طلاق واقع ہونےکے لیے یہ ضروری ہے کہ شوہر طلاق کی نسبت بیوی کی طرف کرے، اگر  بیوی کی طرف نسبت نہ کی ہو نہ صراحۃ ،نہ اشارۃاورنہ دلالۃ تو شرعا طلاق واقع نہیں ہوتی ۔
              صورت مسؤلہ میں  پشتو زبان میں ''طلاق مہ دی کہ د پیسے راثخہ ورکے''(میری طلاق ہے اگر آپ نے مجھ سے پیسے دے دیئے)کہنے کے اندر  بیوی کی طرف نہ صراحۃ طلاق کی نسبت ہےاور نہ عرف میں اس سے بیوی کو طلاق دینا مقصود ہوتا ہے،اس لیے ان الفاظ  کے کہنےکے بعدپیسے ادا کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
وفی فتاوی جامعة بنوریة علی الشبکة:
 اگر مذکورہ صورت میں  آپ یہ کہتے ہیں کہ میں نے ان الفاظ کی نسبت اپنی بیوی کی جانب نہیں کی (جیساکہ صراحتاً الفاظ میں شوہر نے بیوی کی جانب نسبت کا ذکر نہیں کیا) تو شوہر (آپ) سے اس بات پر حلف لیاجائے گا، اگر شوہر حلف اٹھالیتا ہے تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا، اور طلاقیں واقع نہیں ہوں گی، اور اگر قسم سے انکار کرتا ہے تو تینوں طلاقیں واقع شمار ہوں گی۔ اور آئندہ بھی ان الفاظ سے بچنے کی کوشش کریں۔
وفی فتاوی دارالعلوم دیوبند علی الشبکة:
طلاق کے وقوع کے لیے بیوی کی طرف صراحتاً یا دلالةً طلاق کی نسبت کرنا ضروری ہے،صراحتاً یا دلالةً بیوی کی طرف طلاق کی نسبت کیے بغیرلفظِ ”طلاق “کا تلفظ کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاءجامعۃالرشید

25/7/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے