021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ای بے اےوائی (EBAY) کی ویب سائٹ پر ڈراپ شپنگ اور کمیشن ایجنٹ بننے کا حکم
83096خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

         تنقیح سوال : میں ای بے (eBay)ڈراپ شپنگ کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں، جس میں ہم Amazon یا کسی دوسری ویب سائٹ سے چیزیں خریدتے ہیں اور پھر اسے اپنے گاہک کو بیچ دیتے ہیں۔ہم ہر چیز کو صحیح طریقے سے بیان کرکے بیچتے ہیں، یہاں تک کہ اگر گاہک کو پروڈکٹ پسند نہ آئے  تو وہ  واپس کرسکتا ہے۔نیزگاہک کے پاس آرڈر کردہ چیز کے برعکس دوسری چیز پہنچ جائے  یا  اسے پہنچی ہوئی چیز ان تفصیلات کے مطابق نہ ہو جو اکاؤنٹ میں دکھائے گئے تھے تو ایسی   صورت میں گاہک کو رقم کی واپسی کا اختیار ہوتا ہے اور بعض اوقات ہمیں اس  میں نقصان بھی پیش آتا ہے۔ پروڈکٹ کو اس کی کمپنی کے نام کے ساتھ مکمل طور پر بیان کیاجاتا ہے ( جب سے میں  نے آپ کے  ایک فتوی  میں کسی کمپنی کے کمیشن ایجنٹ  بننے سے متعلق شرعی حکم   پڑھا ہے اس کے بعد سے  میں نے ہر چیز کو واضح  طور پر بیان کرکے اپلوڈ کیا ہوا ہے)۔بعض اوقات  ہم جعلی ٹریکنگ کا بھی استعمال کرتے ہیں کیونکہ eBay کی بہت سخت پالیسیاں ہیں( سائل کے مطابق جعلی ٹریکنگ کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں Amazon سے آرڈر کرتا ہوں تو وہ مجھےایک  حقیقی ٹریکنگ نمبر فراہم کرتا ہے لیکن میں اس ٹریکنگ نمبر کو ای بے پر اپ ڈیٹ نہیں کر سکتا،کیونکہ ای بے کا سسٹم  فوری طور پر اس کا پتہ لگاتا ہے،  تو اس کے لیے ہم مختلف سافٹ وئیرز استعمال کرتے ہیں جو ہمیں اپنا ٹریکنگ نمبر تبدیل کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔  نمبر تبدیل کرنے کے بعد  اس دوسرے نمبر  کو ای بے قبول کر تا ہے )۔ جعلی ٹریکنگ استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے  کہ جس وقت اکاؤنٹ ہولڈر ای بے  پر اپنا اکاؤنٹ بناتا ہے تو اس کا معاہدہ ہوتا ہے کہ وہ ایک مخصوص جگہ مثلا امریکہ  سے چیزیں اٹھا کر فروخت کرے گا اس کے برعکس  اگر وہ مثلا چائنا سے آرڈر کرے گا تو ای بے اس کی اجازت نہیں دے گا ۔ پھر اس کے حل کے لیے جعلی ٹریکنگ نمبر کا سہارا لیا جاتا ہے تاکہ اکاؤنٹ ہولڈر کی لوکیشن تبدیل نہ ہو   جبکہ اصل ٹریکنگ ایڈریس کسی بھی جگہ کا ہوسکتا ہے جہاں پروڈکٹ واقع ہو۔ اس عمل سے گزرنے کے بعد سیلر کو  ای بے کی طرف سے   اجازت مل جاتی ہے ۔

اب میرا سوال یہ ہےکہ:

۱۔      کیا اس صورت حال میں ڈراپ شپنگ حلال ہے؟

۲۔      کیا میرے لیے ای بے پر موجود  کسی اور کے اکاؤنٹ کو بطور ایجنٹ مخصوص کمیشن کے عوض چلانا جائز ہے ؟

۳۔      کیا میرے لیےکسی دوسرے  اکاؤنٹ ہولڈر کے لیے  پروڈکٹ ہنٹنگ (بیچنے کے لیے چیزیں تلاش کرنا)اور لسٹنگ (اپنے اکاؤنٹ پر چیزیں اپلوڈ کرنا)جیسی خدمات سر انجام دینا  جائز ہےجس کےلیے  میں اس سے تنخواہ یا کمیشن وصول کروں ؟ 

بہت سے فتوے آن لائن دستیاب ہیں اور یہ سب بہت الجھے ہوئے ہیں ۔ براہ کرم اگر آپ مجھے جواب دیں گے  تو میں بہت مشکور ہوں گا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے شریعت مطہرہ کا اصول ہے کہ  خرید و فروخت کے معاملے میں  اس بات کی رعایت ضروری ہے کہ  جس چیز کی خرید و فروخت  ہورہی ہو، وہ عاقدین (سیلر اور کسٹمر )کے درمیان معاملہ طے پاتے وقت بائع (سیلر)کی ملکیت میں ہو، اور وہ چیز معلوم و متعین ہو اور بائع(سیلر)  کے قبضہ میں بھی  ہو، چنانچہ اگر مبیع  (بیچی جانے والی پروڈکٹ)    بیچنے والے کی ملکیت میں نہ ہو بلکہ اپنے  سوشل اکاؤنٹس و اسٹیٹس  پر محض اس کا اشتہار یا تصویر دکھلا کر  وہ  چیز فروخت کی جائے اور پھر اسے کسی دکان یا  آن لائن   اسٹوروغیرہ  سے خرید کر  کسٹمر  کو دی جائے یا اس کے ایڈریس   پرروانہ کر دی جائے  تو یہ صورت سیلر  کی ملکیت میں مبیع (پروڈکٹ )موجود نہ ہونے کی وجہ سے شرعا جائز نہیں ، البتہ اگر اس چیز کو اپنی ملکیت اور قبضے میں لانے کے بعد فروخت کیا جائے تو یہ عقد جائز ہوگا۔

(۱)     ای بے ((eBay    کی ویب سائٹ پر  دی گئی معلومات اور اس سے منسلک  تاجروں کے کہنے کے مطابق ای بے   دیگر خرید و فروخت کی سہولیات کے ساتھ رائج   ڈراپ شپنگ کی بھی  سہولت فراہم کرتی ہے۔ اس میں اگر کسٹمر سے آرڈر لینے کو حتمی بیع(confirm contract) سمجھا جاتا ہو(جیسا کہ عموما ہوتا ہے)تو چونکہ اس مرحلے میں  فروخت کرنے سے قبل فروخت کی  جانے والی چیز بائع(سیلر) نے نہیں خریدی ہوتی  ہےاور نہ وہ  اس کا مالک  ہوتا ہے، لہذا اس کے لیے اس کو آگے بیچنا بھی شرعا جائز نہیں۔  

مذکورہ معاملہ  کو جائز بنانے کے لیے متبادل کے طور پر دوطریقے اختیار کرسکتے ہیں:

۱۔     ایک یہ کہ آپ (  سیلر ) اپنے  اکاؤنٹ پر چیزوں کی تصاویر اپلوڈ کرتے وقت ایک مختصر سا جملہ اعلان کے طور پر  لکھ دے کہ" کسٹمر کا  آرڈر قبول کرنا  فی الوقت پروڈکٹ بیچنے کا محض وعدہ ہے ، کوئی حتمی بیع نہیں ہے " چنانچہ آرڈر لینے کے بعد پہلے  آپ وہ  پروڈکٹ اپنے سیلر   سے خرید کر  اپنے قبضے میں لائے   یا   سیلر کا جو بھی کوریئر سروس ہے اسے  پروڈکٹ پر قبضہ کرنے کا وکیل (ایجنٹ) بنادے، قبضہ کرنے کے بعد  وہ پروڈکٹ کسٹمر تک پہنچانے سے پہلے زبانی یا تحریری ایجاب و قبول کے ذریعے حتمی بیع کی جائے اس کے بعد سیلر  یا اس کا وکیل ثمن پر قبضہ کرے اور کسٹمر پروڈکٹ پر  قبضہ کرے ۔ تو اس طرح سے معاملہ مکمل ہوجائے گا۔

۲۔     دوسرا یہ کہ(اگر ممکن ہو تو) آپ   اپنے سیلر مثلا ایمازون  سے یہ معاہدہ کریں کہ میں  آپ کے کمیشن ایجنٹ کی حیثیت سے چیزوں کے اشتہارات  لگا کر  کسٹمرز کے آرڈر وصول کروں گا  اور انہیں    آپ کی جانب بھیج دوں گا ، وہ جتنے کی خریداری کریں گے اس کا اتنے فیصد میری اجرت (کمیشن) ہوگی یا یوں بھی طے کرسکتا ہے کہ فلاں پروڈکٹ کی فروختگی پر اتنے روپے لوں گا۔

       اس صورت میں سیلر اصیل بنے گا اور آپ اس کے وکیل(ایجنٹ)  بنیں گے اور اپنی وکالت کی متعین اجرت وصول کریں گے۔ اس صورت میں سیلر کے ساتھ یہ طے کرنا بھی ضروری ہے کہ وہ اسی پروڈکٹ سے متعلق ہر قسم کے نقصان کا ذمہ دار ہوگا مگر یہ کہ کوئی نقصان آپ کی غفلت اور قصور واری سے ہوا ہو ۔

(۲)   آپ کا ای بے(eBay) پر موجود  کسی اور کے اکاؤنٹ کو بطور ایجنٹ متعین کمیشن  یا تنخواہ کے عوض چلانا شرعا درست جائز ہے۔   آپ اپنی اجرت یوں بھی طے کرسکتے ہیں کہ جتنے کی فروختگی  ہوگی  اس کا اتنے فیصد میری اجرت (کمیشن) ہوگی یا یوں بھی طے کرسکتا ہے کہ فلاں پروڈکٹ کی فروختگی پر اتنے روپے لوں گا۔

(۳)۔  اگر ای بے(eBay)  کا کوئی اکاؤنٹ ہولڈر   آپ کو پروڈکٹ ہنٹنگ (بیچنے کے لیے چیزیں تلاش کرنا)اور لسٹنگ (اکاؤنٹ ہولڈر کے اکاؤنٹ   پر چیزیں اپلوڈ کرنا)جیسی خدمات سر انجام دینے کے لیے رکھنا چاہے اور اس کام کے عوض آپ ان سے متعین تنخواہ یا کمیشن  وصول کریں  تو یہ بھی شرعا جائز ہے ۔

نیز اس طرح کے معاملات میں درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے:

۱۔ جن چیزوں کی تصاویر ای بے کی ویب سائٹ پر دکھائی جاتی ہوں  اور وہاں  ان کی جو بھی  تفصیلات لکھی گئی ہوں وہ  فروخت کی جانی والی چیزوں کی صفات (qualities)کے عین  مطابق ہونی چاہیے۔

۲۔جو چیزیں  فروخت کیے جائیں ان کی خرید وفروخت شریعت میں جائز ہو اور ای بے کی پالیسی کے  رو سے درست ہو، یعنی انہیں بیچنے کی اجازت ہو۔

۳۔ چیزوں کی قیمتیں معلوم   ہوں ، ان میں  کسی قسم کا ابہام نہ ہو۔

حوالہ جات
مصنف ابن أبي شيبة (4/ 311):
(20499 )حدثنا أبو بكر قال: حدثنا هشيم، عن أبي بشر، عن يوسف بن ماهك، عن حكيم بن حزام، قال: قلت: يا رسول الله، الرجل يأتيني ويسألني البيع ليس عندي، أبيعه منه، أبتاعه له من السوق؟ قال: فقال: «لا تبع ما ليس عندك».
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (11/ 116):
( ومنها ) وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد ، وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة ، وهذا بيع ما ليس عنده { ، ونهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع ما ليس عند الإنسان ، ورخص في السلم }۔
المبسوط للسرخسي (13/ 8):
المنقولات لا يجوز بيعه قبل القبض عندنا...وحجتنا ما روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه                                                   نهى  عن بيع  ما لم  يقبض الخ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63):
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة.
فقہ البیوع، المجلد الثانی، ص 1103/2 )     (:                                                  
الوعد او المواعدۃ بالبیع لیس بیعاً، ولا یترتب علیہ آثار البیع من نقل ملکیۃ المبیع ولا وجوب الثمن۔

صفی اللہ

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

26/رجب المرجب/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی اللہ بن رحمت اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے