021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پیک شدہ چیزوں کا وزن کم ہونے کے باوجود مکمل قیمت وصول کرنا
82969خرید و فروخت کے احکامبغیر دیکھے خریدنے بیچنے کے مسائل

سوال

جو چیزیں پیک شدہ ملتی ہیں ان میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وزن باہر کچھ لکھا ہوتا ہے، لیکن وہ چیز اپنے اس وزن سے کچھ مقدار کم ہوتی ہے، جیسے،  تو ایسی اشیاء  کی خریدفروخت کے حوالے سے کیا حکم ہے؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ عام طور پر لوگ پیکٹ بول کر ہی خریداری کرتے ہیں، وزن کا ذکر نہیں کرتے، اگرچہ ان کا مقصود مخصوص وزن کا پیکٹ ہوتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں اگر گاہک پیکٹ بول کر ہی دکان دار سے اس کی خریداری کا مطالبہ کرے، جیسے میزان آئل کا ایک پیکٹ وغیرہ تو اس صورت میں یہ خریدوفروخت درست ہو گی، کیونکہ اس صورت میں وزن کو مدِنظر رکھے بغیر پیکٹ کی خریداری شمار ہو گی اور وہ متعین مقدار سے کم ہو یا زیادہ بہر صورت خریدوفروخت درست شمار ہو گی۔ نیز اگر بالفرض کوئی گاہک یوں کہے کہ مجھے ایک کلو والا گھی یا چینی کا پیکٹ دے دو تو بھی گاہک کا مقصود وہ پیکٹ ہی ہوتا ہے، وزن کا ذکر وہ پیکٹ کی تعیین کے لیے کرتا ہے، اس لیے اس صورت میں بھی خریدوفروخت درست شمار ہو گی اور آپ کے لیے اس پیکٹ کی مکمل قیمت وصول کرنا جائز ہے، اگرچہ اس پیکٹ میں چیز کی مقدار کچھ کم ہو، کیونکہ اس میں بھی مقصود پیکٹ کی ہی خریداری ہوتی ہے۔

مذکورہ بالاتفصیل گاہک اور دکان دار کی خریدوفروخت کے جائزیا ناجائز ہونے سے متعلق ہے، جہاں تک صانع یعنی وہ چیزبنانے والی کمپنی  کا اس پیکٹ میں کم وزن ڈالنے کا تعلق ہے تویہ ہرگز جائزنہیں، بلکہ  اس کمپنی  پر لازم ہے کہ وہ ہرپیکٹ میں مکمل وزن ڈالے، کم وزن ڈال کر پیکٹ کے اوپر پورا وزن لکھنے میں جھوٹ ، غلط بیانی اور دھوکہ دہی کا ارتکاب لازم آتا ہے، نیز اس صورت میں کم وزن کے بقدر حاصل کیا گیا نفع بھی حلال نہیں ہو گا۔البتہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کمپنی پیکٹ میں کم وزن ڈال کر واضح طور پر اوپر لکھ دیتی ہے کہ اس میں صافی یعنی چیز کا خالص وزن اتنا ہے تو اس صورت میں دھوکہ دہی کا عنصر نہیں ہو گا اور نفع بھی حرام نہیں ہو گا۔  

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 23) دار احياء التراث العربي، بيروت:
"والأعواض المشار إليها لا يحتاج إلى معرفة مقدارها في جواز البيع" لأن بالإشارة كفاية في التعريف وجهالة الوصف فيه لا تفضي إلى المنازعة.
فقه البيوع للشيخ  محمد تقي عثماني ج 1،ص:409) مكتبة معارف القرآن، كراتشي:
ثم قد شاع في عصرنا أن الموزونات تباع في علب معبأة مكتوب عليها وزنها. ومعنى ذلك أن البائع عبّاها بعد وزنها، وكتب الوزن على القلب، وكذلك المكيلات، مثل الحليب، والأدهان، والبنزين، باع معبأة في علب مكتوب عليها كلها باللترات. وقد سبق جواز بيعها في بيان البيع على البرنامج، ولكن الناس يشترون هذه القلب، دون أن يزنوا أو يكيلوا ما فيها، ولا يمكنهم الوزن أو الكيل، لأن ذلك يحتاج إلى فك التعبئة، وفيه حرج شديد للبائع والمشتري کلبهما. فهل يجوز مثل هذا البيع؟ أما على مذهب الإمام مالك رحمه الله تعالى، وقول الشيخ الأنور رحمه الله تعالى، فلا إشكال، لأن المشتري إن اعتمد على كيل البائع، جاز له أكله بدون إعادة الكيل، سواء أكان بحضرته أم بغيبته. وقال الشيخ الأنور رحمه الله تعالى: " وأما إذا كانت الصفقة واحدة، فلا حاجة إلى الكيل ثانيا، بل كفاه گيل البائع، إن كان بحضرته عند صاحب الهداية، و عندي مطلقة، إذا اعتمد عليه. كذا في فيض الباري 220/3)).
                        ويمكن توجيهه بأن النهي في الحديث معلول بعلة الإفضاء إلى النزاع، فإن اعتمد المشتري على وزن البائع انتفت العلة، فانتفى الحكم. وأما على قول جمهور الفقهاء الذين أخذوا بظاهر الحديث، وأوجبوا أن يتزن المشتري لنفسه أو يزنه البائع بحضرته، فيمكن أن يقال في بيع هذه العلب: إنها بعد تعبئتها صارت عددية، تباع على الصفة عددا. وأما الوزن المكتوب عليها، فليس لكونها تباع وزنا، وإنما لتمييز صغيرها من كبيرها. وهذا كما أن الحيوانات، مثل الدجاج و الشاة، عددية بلا خلاف، ومع ذلك قد تباع بعد الوزن، لا لأنها وزنية، بل المعرفة هزيلها من سمينها، فيمكن تخريج بيعها على أنها بيعت على الصفة مجازفة. وعلى هذا، فقبضها يتحقق بما يتحقق به قبض العدديات المنقولة. والله سبحانه وتعالى أعلم.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

24/رجب المرجب 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے