021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دو بیویوں، پانچ بیٹوں اور پانچ بیٹیوں میں میراث کی تقسیم
83068میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

زید کا انتقال ہوا، ترکہ میں دو پلاٹ چھوڑے ہیں، ایک زمین 200 بائے 200 فٹ ہے اور دوسری 71 بائے 55 فٹ ہے۔ میت کے والدین، دادا، دادی اور نانا، نانی انتقال کرچکے ہیں۔ میت کی دو بیویاں ہیں، دونوں زندہ ہیں، ایک بیوی سے چار بیٹے اور دو بیٹیاں، جبکہ دوسری بیوی سے ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔ ان کے درمیان میراث کی تقسیم کیسے ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زید نے انتقال کے وقت مذکورہ دو پلاٹوں سمیت اپنی ملکیت میں جو منقولہ و غیر منقولہ مال و جائیداد ،نقد رقم، سونا چاندی، مالِ تجارت غرض ہر طرح کا چھوٹا بڑا جو بھی سازوسامان چھوڑا ہے یا اگر مرحوم کا کسی شخص یا ادارے کے ذمے  کوئی قرض واجب ہو، وہ سب مرحوم کا ترکہ ہے۔ اس میں سےسب سے پہلے مرحوم کی تجہیز و تکفین كےمتوسط اخراجات اداكئے جائیں،اگر یہ اخراجات کسی نے احسان کے طور پر ادا کردئیے ہوں تو اس صورت میں یہ اخراجات ترکہ سے نہیں نکالے جائیں گے۔ پھر دیکھیں اگر مرحوم کے ذمہ کسی کا قرض واجب الادا ہو تو اس کو ادا کریں ، اگر مرحوم نے اپنی دونوں بیویوں یا ان میں سے کسی ایک کا مہر ادا نہ کیا ہو اور اس نے اپنی دلی خوشی سے معاف بھی نہ کیا ہو تو وہ بھی قرض میں شامل ہے جو اس کو دینا ضروری ہے۔اس کے بعد دیکھیں اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ مال میں سے ایک تہائی (3/1)مال کی حد تک اس پر عمل کریں۔ اس کے بعد جو کچھ بچ جائے اس کے کُل دو سو چالیس (240) حصے کر کے دونوں بیویوں میں سے ہر ایک کو پندرہ، پندرہ (15، 15) حصے، پانچ بیٹوں میں سے ہر ایک کو اٹھائیس، اٹھائیس (28، 28) حصے اور پانچ بیٹیوں میں سے ہر ایک کو چودہ، چودہ (14، 14) حصے دیدیں۔ فیصدی اعتبار سے ہر بیوی کو 6.25%، ہر بیٹے کو 11.66% اور ہر بیٹی کو 5.833% حصہ ملے گا۔  

حوالہ جات
القرآن الکریم،  [النساء: 12-11]:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ }.
{فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن}.
 السراجی فی المیراث(5):
قال علماؤنا رحمهم الله  تعالی: تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة: ألأول يبدأ بتكفينه وتجهيزه من غیر تبذیر ولاتقتیر، ثم تقضی دیونه  من جمیع ما بقی من ماله،  ثم تنفذ وصایاه من ثلث ما بقی بعد الدین، ثم یقسم الباقی بین ورثته بالکتاب والسنة وإجماع الأمة.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

    26/رجب المرجب /1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے