021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نکاح میں ایک لاکھ مہر اورچارتولہ سونا اورمکان کی شرط لگانے کاحکم
83201طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میرانکاح آج سے تین سال پہلے ہواتھا،اورنکاح کے وقت میری عمرتقریباًسترہ سال تھی، میرے نکاح میں بڑا بھائی،خالہ کابیٹا اوروالد (جوکہ بیمارہے) موجود تھے،جب نکاح خواں نے پوچھاکہ حقِ مہراورشرائط کیاہیں؟ تو لڑکی والوں نے کہا کہ ایک لاکھ روپے حقِ مہراورچارتولہ سونااورایک کمرے کابیان شرط میں لکھیں ،جس پر میرے خالہ کے بیٹے نے روکتے ہوئے کہا کہ یہ شرائط نہیں لکھنا،یہ غلط ہیں ،اسی دوران میرے بھائی نے بھی کہاکہ یہ شرائط نہ لکھیں،لیکن لڑکی کے ماموں اورچاچونے نکاح خواں سے کہا کہ یہ شرائط جوہم نے بتائی ہیں لکھیں اورپھریہ شرائط لکھ دیں ،میرے والد شوگراوربلڈ پریشرکے مریض ہیں وہ بھی راضی نہیں تھے ،بعدمیں جب میری والدہ کو پتہ چلاتو اس نے بھی کہا کہ کس نے تم سے یہ شرائط لکھنے کا کہاہے؟یہ غلط ہیں اورکس سے پوچھ کریہ شرائط لکھیں؟چونکہ میری عمرکم تھی تو مولوی نے نکاح نامہ نہیں دیا تووالدہ نے کہ جب نکاح نامہ ملے گا تو تب میں ان سے بات کروں گی .اب مجھے پوچھنایہ ہےکہ

ہماری طلاق ہوچکی ہے، کیامجھ پرمہرکےساتھ  مذکورہ بالادوچیزیں چارتولہ سونا اورایک کمرے کا بیان بھی دینا لازم ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایک لاکھ حقِ مہراگرآپ نے ابھی تک نہیں دیا وہ تو آپ پر دینالازم ہے،جہاں تک چارتولہ سونا اورمکان والی شرط کا تعلق ہے تو اگرواقعةًآپ کے کسی وکیل نے آپ کی اجازت سے اسے قبول نہیں کیا تھااورلڑکی والوں نےاپنی طرف سے لکھوایاتھا جیسے آپ کا کہناہےتوپھر یہ آپ پر دینا لازم نہیں ،اوراگرآپ کے وکیل نے آپ کی اجازت سے اسےقبول کرلیاتھاتوپھر دیانت کا تقاضہ یہ ہےکہ اس وعدہ کوآپ  پورا کریں ،بلاعذرپورا نہ کرناگناہ کا سبب ہوگا، تاہم لڑکی والے جبراً آپ سےیہ وصول نہیں کرسکتے۔

حوالہ جات
فی بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 287):
"المهر في النكاح الصحيح يجب بالعقد؛ لأنه إحداث الملك، والمهر يجب بمقابلة إحداث الملك؛ ولأنه عقد معاوضة وهو معاوضة البضع بالمهر فيقتضي وجوب العوض كالبيع".
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (3/ 95):
لو تزوج امرأة على أن يهب لأبيها ألف درهم، فهذا الألف لا يكون مهراً ولا يجبر على أن يهب.
وفی البناية شرح الهداية (5/ 166):
 وفي " المغني ": الشروط في النكاح أقسام ثلاثة:الأول: يلزم الوفاء به، وهو ما يعود نقصه إليها وهو أن لا يخرجها من دارها أو بلدها أو لا يسافر بها أو لا يتزوج عليها ولا يتسرى عليها، فهذه الشروط يلزمه الوفاء بها، فإن لم يف فلها فسخ نكاحها، يروى ذلك عن عمر، وسعد بن أبي وقاص، ومعاوية وعمرو بن العاص - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ -.وبه قال شريح، وعمر بن عبد العزيز، وجابر بن زيد، وطاوس، والأوزاعي، وإسحاق وأبطل هذه الشروط الزهري وقتادة، وهشام بن عروة، والليث والثوري؛ ومالك، والشافعي، وابن المنذر. وقال أبو حنيفة وأصحابه: لكن يكمل لها مهر المثل إن نقصت منه بسبب هذه الشروط.والثاني: ما يبطل فيه الشروط ويصح النكاح، مثل أن يشترط أن لا يكون لها مهر، وأن ينفق عليها، ولا يطأها، أو أن يعزل عنها، أو لا يكون عندها في الجمعة إلا يوماً أو ليلة، أو شرط لها النهار دون الليل، أو شرط عليها أن تنفق عليه أو تقطعه شيئاً من مالها، فهذه الشروط كلها باطلة، لأنها تنافي مقتضى العقد، والنكاح صحيح في الصور كلها؛ لأنه لا يبطل بالشروط الفاسدة.والثالث: ما يبطل به النكاح وهو التوقيت في النكاح، ونكاح المتعة واشتراط الخيار، وهذا اتفاق، أو يقول: زوجتك إن رضيت أختها أو فلانا أوجبت بالمهر في وقت كذا، وإلا فلا نكاح بيننا.
وفی شروط عقد النكاح في الفقه الإسلامي  لخلود بدر الزمان(ص: 1495):
٣ -الشرط الذي لا ينافي أصل العقد ولا مقتضاه ولا غايته ولا مقاصده وليس فيه ما يحل حراما أو يحرم حلالا يكون صحيحا ويجب الوفاء به، ولصاحبه حق الفسخ إذا أخل به .  (المشروط عليه وهذا عند الحنابلة وقال الحنفية: يجب الوفاء به، ولكن لا أثر له في العقد عند تخلفه، لأن فوات الشرط يعني عدم الرضا بالتعاقد، وفوات الوصف لا أثر له على عقد الزواج عند الأحناف إذ يصح عندهم ، ومثال هذا الشرط: أن يشترط الزوج على الزوجة أن تسافر معه... إلى بلده، أو تشترط الزوجة على الزوج أن لا يخرجها من دارها أو من بلدها، أو تشترط عدم إسكانها في محل معين، ونحو ذلك من الشروط التي فيها منفعة مقصودة لأحدهما، ولا تنافي غاية الزواج ومقاصدہ(شروط عقد النكاح في الفقه الإسلامي واختيارات قانون الأحوال الشخصية الكويتي خلود بدر الزمان جامعة الشارقة الکویت )
وفی صحیح البخاري:
عن أبي ہریرۃؓ عن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم قال: آیۃ المنافق ثلاث، إذا حدث کذب، وإذا وعد
أخلف وإذا اؤتمن خان۔ (صحیح البخاري، کتاب الإیمان، باب علامۃ المنافق، النسخۃ الہندیۃ ۱/۱۰، رقم:۳۳)
وفی امداد الفتاوی جدید ۔ حاشیہ شبیر احمد القاسمی( 4/399):
سوال :کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے بمقابلہ عمرووخالد کے ایک عورت سے اس شرط پر نکاح کیاتھا کہ بعد نکاح کرنے کے یہیں بود وباش اختیار کریں گے دوسرے گاؤں کلکتہ وغیرہ کبھی نہیں جائیں گے، اب نکاح ہونے پر زید وعدہ خلافی کرکے کلکتہ یا بمبئی پھرچلا گیا اس صورت میں نکاح باطل ہوگیا یانہیں ؟  بینوا توجروا!
الجواب: في الدرالمختار مع رد المحتار: وما یصح ولا یبطل بالشرط الفاسد إلیٰ قولہ والنکاح (ج :۴، ص :۳۵۳-۳۵۴)اس سے معلوم ہوا کہ نکاح میں کوئی فساد یا بطلان نہیں آیا البتہ وعدہ خلافي بلاعذر کاگناہ الگ چیز ہے۔لقولہ تعالیٰ:  أوفوا بالعہد(سورۃ الاسراء، رقم الآیۃ:۳۴)
وفی فتح الباري: (9/ 217):
عن عقبة بن عامر - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "إن أحق الشروط أن
توفوا به ما استحللتم به الفروج".
قوله: (إن أحق الشروط أن توفوا به ما استحللتم به الفروج).
قال الحافظ: (أي أحق الشروط بالوفاء شروط النكاح؛ لأن أمره أحوط وبابه أضيق.
وقال الخطابيالشروط في النكاح مختلفة، فمنها ما يجب الوفاء به اتفاقًا، وهو ما أمر الله به من إمساك بمعروف أو تسريح بإحسان، قال: ومنها ما لا يوفى به اتفاقًا؛ كسؤال طلاق أختها، ومنها ما اختلف فيه؛ كاشتراط ألا يتزوَّج عليها، أو لا يتسرَّى، أو لا ينقلها من منزلها إلى منزله؛ انتهى.
وقال الترمذيوالعمل على هذا عند بعض أهل العلم من الصحابة منهم عمر؛ قال: إذا تزوج الرجل المرأة، وشرط ألا يخرجها، لزم، وبه يقول الشافعي وأحمد وإسحاق)[1]؛ انتهي.
وفی الورد الشذی علی جامع الترمذی ( ص: 199)
امام صاحب  ؒکے نزدیک اس قسم کی شروط داخل عقد نہیں۔ پس اگر انکو وفا نہ کرے تو نکاح میں کچھ خلل نہ ہوگا۔ اور جس سے شرط کی تھی اس پر دوسر ا نکاح کرلینا یا اسکو اس شہر سے دوسری جگہ لیجانا جائز ہوگا۔ البتہ وعدہ خلافی کا گناہ ہوگا اور خلف وعدہ کی وعید اور سزا کا مستوجب ہوگا۔
وفی فتاوی رحیمیہ ( 8/ 241):
 (الجواب)ہاں  ، شرط قبول کرنے کے باوجود عورت کو راضی کرکے بلا سکتا ہے ۔جبرنہیں  کرسکتا ۔ لڑکی جانا نہ چاہے تو خط وکتابت اور خرچ  بند کر کے اس کوپریشان کرنا ناجائز ہے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲتعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے ۔’’اذا تزوج الرجل امرأۃ وشرط لھا ۔ ان لا یخرجھا من مصرھا فلیس لہ‘ ان یخرجھا…۔‘‘ یعنی جب مرد نے عورت سے اس شرط پر نکاح کیا ۔ کہ اس کو وطن سے باہر نہیں  لے جائے گا ۔ تو اب عورت کی رضا مندی کے بغیر شوہر اس کو نہیں  لے سکتا ۔(ترمذی شریف ص ۱۳۴ ج۱ابواب النکاح باب ماجآء فی الشرط عند عقدۃ النکاح) اور آنحضرتﷺکا ارشاد ہے کہ وہ شرط جس کا پورا کرنا سب سے زیادہ ضروری  ہے وہ شرط ہے جس پر نکاح کیا گیا ہو۔ (ایضاً ترمذی شریف ص ۱۳۴ ج۱ ایضاً)اگر لندن جانے میں  صحت، عزت، اور آبرو و دینداری کے بارے میں  کوئی اندیشہ نہ ہوتو عورت کو جانے کے لئے اظہار رضامندی بہتر ہے ۔بلکہ بعض حالات میں  جانا ضروری ہوجاتا ہے ۔

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاءجامعۃ الرشید

9/8/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے